السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پانسوں کے ذریعہ سے قسمت معلوم کرنا شریعت کے اعتبارس ے کیسا ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ عزوجل اور شارع کا کیا فرمان ہے وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل مذکور نے پانسواں کے متعلق سوال کیا ہےپانسے، یعنی وہ تیر جن کو اہل عرب زمانۂ جاہلیت میں قسمت کا حال معلوم کرنے کی غرض سے استعمال کرتے تھے ایک تیرپر یہ عبارت کندہ ہوتی۔‘
میرے رب نے مجھے حکم دیا اور دوسرے پر ہوتی میرے رب نے مجھے منع کیا ہے ‘ اور تیرے پر کچھ نہ لکھتے وہ سادہ ہوتا تھا‘ جب سفر یا شادی وغیرہ کا ارادہ کرلیتے تو بتوں کے پاس جا کر پانسوں کے ذریعہ قسمت کا لکھا معلوم کرنا چاہتے اگر حکم دینے والا تیر نکل آتا تو اس کا م کے لیے۔ قدم اٹھاتے اور اگر ممانعت والا تیر نکل آتا تو رک جاتے اور اگر سادہ تیر نکل آتا تو پھر سے قرعہ ڈالتے اس قرعہ اندازی کے ذریعہ ےسے امر یا نہی والا تیر نکل آتا۔
ہماری سوسائٹی میں اس سے ملتی جلتی چیزیں یہ ہیں: رمل، کوڑیاں، کتاب کھول کر فال نکالنا، تاش کے پتے اور فنجان پڑھنا اس قسم کی تمام چیزیں اسلام میں حرام اور منکر ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلـٰمِ ۚ ذٰلِكُم فِسقٌ﴾
اور یہ کہ تم پانسوں کے ذریعہ قسمت معلوم کرو یہ فسق ہے اور حضرت نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
لا ينال الدرجات اعلى من تكهن او استقسم او رجع من سفر تطيرا(النسائى)
’’ وہ شخص بلند درجات کو نہیں پہنچ سکتا جو کہانت کرے یا پانسوں کے ذریعہ قسمت کا حال معلوم کرے یا بدشگونی کی وجہ سے سفر سے واپس لوٹ آئے۔‘‘
لہذا س شرکیہ عقیدہ سے باز آجانا ضروری ہے ورنہ جہنم کی وعید اپنی جگہ قائم ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب