سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) لادین۔ این۔ جی۔ اوز سے مالی امداد کی شرعی حیثیت؟

  • 13505
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1564

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغاخانیت کے پیروکار آغاخان فاؤنڈیشن اور آغاخان سپورٹ پروگرام وغیرہ کا آغاز کرکے غریب و نادار لوگوں کو رفاہ عامہ کے نام سے مالی تعاون کے بدلے اپنی تنظیم کی رکنیت دیتے ہیں اور خطیر رقم خرچ کرتے ہیں کیا قرآن وسنت کی رو سے ان تنظیموں کی رکنیت اختیار کرکے اس طرح فنڈ حاصل کیے جاسکتے ہیں کہ نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسانی زندگی اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت ہے اس کی قدر کرتے ہوئے اسلامی اصولوں اور ضابطوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے، اگر یہی اللہ تعالی کی نافرمانی میں بسر ہو تو پھر یہ انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اسلام کے سنہری ضابطوں کے مطابق بسر ہوتا کہ دنیا اور آخرت میں کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکے۔ ان ضابطوں میں سے ایک ضابطہ اللہ تعالی نے یہ مقرر کیا ہے کہ نیکی کے کاموں پر آپس میں تعاون اور برائی کی مخالفت کی جائے۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ﴿٢﴾... سورة المائدة

’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ظالم و زیادتی میں مدد نہ کرو ‘‘

جب اس سنہری ضابطہ اور اصول کے مطابق ہم فی نفسہ مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو پھر یہ بات روز روشن کی طرف عیاں ہوتی ہے کہ ہمیشہ لادینی طاقتوں نے رفاہ عامہ کے نام مسلمانوں پر خرچ کرکےان کو بے راہ روی پر چلانے اور ان کے درمیان باطل عقائد کی ترویج کی ہے۔

ماضی کی طرح اب بھی شمال علاقہ جات میں لوگوں کی غربت اور بنیادی سہولتوں سے محرومی دیکھ کر آغا خانی تنظیم کی سرگرمیاں بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہیں، کیونکہ یہ تنظیم رفاعی کاموں پر خرچ کرکے مسلمانوں کی اپنی تنظیم کارکن بناتی اور اہل اسلام کے اندر اپنے باطل نظریات کی ترویج کرتی ہے اس طرح سے اس تنظیم کا کارکن بننا اور مالی تعاون لینا یہ برائی پر تعاون اور اس کے برے مقاصد کی تکمیل ہے جو کہ شرعاًکسی  طرح بھی جائز نہیں، بلکہ منع اور حرام ہے اس کے علاوہ جب ایک چیز کے فوائد بھی ہوں اور نقصانات بھی لیکن نقصانات زیادہ ہوں۔ تو اس سے فوائد لینا جائز نہیں ہوتا، جیسا کہ اللہ تعالی نے شراب اور جوا کے بارے میں فرمایا:

﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ الخَمرِ‌ وَالمَيسِرِ‌ ۖ قُل فيهِما إِثمٌ كَبيرٌ‌ وَمَنـٰفِعُ لِلنّاسِ وَإِثمُهُما أَكبَرُ‌ مِن نَفعِهِما...﴿٢١٩﴾... سورة البقرة

کہ ان دونوں میں فوائد بھی ہیں لیکن مفاسد فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے ان کے منافع اور فوائد کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جب کسی چیز میں دو احتمال ہوں، یعنی اچھائی اور برائی ، تو پھر احتیاط والی جانب کو اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ مشکوۃٰ باب اللعان میں ہے کہ آپﷺ نے سودہ بنت زمعہ کو ان کے بھائی سے بطور احتیاط پردہ کا حکم دیا تھا۔

صورت مسئولہ میں آغاخان کی امداد لینے میں اگرچہ ظاہری فوائد ہیں، لیکن اس کے نقصانات زیادہ ہیں کیونکہ اس امداد کے عوض وہ اپنے غلط نظریات اور مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں،اس لیے اس قسم کی تنظیموں سے امداد لینا یہ برائی اور غلط نظریات  کی ترویج پر تعاون ہے جوکہ شرعاً حرام ہے۔ اہل اسلام پر ان سے بچنا ضروری ہے اور حکومت کو بھی چاہیے، وہ ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کو روکے تاکہ سادہ لوح مسلمان بے راہ روی کا شکار ہونے بچ سکیں۔ فقط حافظ عبدالوہاب روپڑی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص215

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ