سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) دیگر مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ جائز ہے

  • 13504
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2202

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یا اسلام میں دیگر مذاہب کی کتابوں کے مطالعے کی اجازت ہے۔ مثلاً تورات، زبور، انجیل وغیرہ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائز ہے کیونکہ زبانوں کا اختلاف آیات اللہ میں شامل ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَمِن ءايـتِهِ خَلقُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَاختِلـفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلونِكُم إِنَّ فى ذلِكَ لَءايـتٍ لِلعـلِمينَ ﴿٢٢﴾... سورة الروم

’’اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں‘‘

اور احادیث میں ہے:

(1)عربی لکھنی ہے۔

’’ زیدبن ثابت کہتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کتاب کی تعلیم حاصل کروں اور فرمایا کہ میں یہود کی طرف سے خط و کتابت کے سلسلے میں مطمئن نہیں ہوں۔ حضرت زید فرماتے ہیں کہ میں نے صرف نصف مہینے میں ان کی کتاب میں مہارت حاصل کرلی۔‘‘

اس حدیث کی شرح میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں:

لَا يُعْرَفُ فِي الشَّرْعِ تَحْرِيمُ تَعَلُّمِ لُغَةٍ مِنَ اللُّغَاتِ سُرْيَانِيَّةً أَوْ عِبْرَانِيَّةً أَوْ هِنْدِيَّةً أَوْ تُرْكِيَّةً أَوْ فَارِسِيَّةً وَقَدْ قَالَ تَعَالَى ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم أَيْ لُغَاتُكُمْ بَلْ هُوَ مِنْ جُمْلَةِ الْمُبَاحَاتِ نَعَمْ يُعَدُّ مِنَ اللَّغْوِ وَمِمَّا لَا يَعْنِي وَهُوَ مَذْمُومٌ عِنْدَ أَرْبَابِ الْكَمَالِ

یعنی شریعت میں سریانی اور دوسری زبانیں سیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ ہاں بے مقصد اور لغویات کی تعلیم حاصل کرنا مذموم ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بني إسرائيل وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا دین کی تبلیغ کرو اگرچہ تمہارے پاس ایک آیت ہی ہو۔ بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات نقل کی وہ جہنمی ہوگیا۔‘‘

ان دونوں صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ نہ صرف دوسری زبانیں سیکھنا جائز ہے بلکہ دوسری باطل اور منسوخ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ ہر اس مسلمان کے لیے جائز ہے جس میں درج ذیل شرطیں موجود ہوں۔

(1)اول یہ کہ اسلام کے تمام بنیادی عقائد احکام اور ضروریات میں نہ صرف کامل دستگاہ کا حامل ہو، بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان ہو۔ جاہل اور نام کا مسلمان نہ ہو۔(2) دین اسلام کو ہر لحاظ یعنی عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے کام مکمل ضابطہ حیات (دین قیم) سمجھتا ہو(3) اسلام کے مقابلے میں دنیا کے تمام مذاہب کو مبدل منسوخ اور  باطل سمجھتا ہو(4) ان کتابوں کو محرف اور منسوخ جانتا ہو(5) مطالعہ سے اسلام کی برتری مقصود ہو۔ مداہنت مقصود نہ ہو(6) او ران مذاہب والوں کی حوصلہ افزائی بھی مقصود نہ ہو(7) صرف پندو نصائح پر مشتمل ہو ورنہ غیر مذاہب کی کتب مطالعہ ہرگز جائز نہیں۔ چنانچہ یہی مطلب ہے۔ ابوہریرہ﷜ کی اس مشہور حدیث کا کہ جب حضرت فاروق اعظم﷜ نے یہود کی چند حکایات او رمواعظ لکھنے لینے کی اجازت طلب فرمائی تھی تو رسول اللہﷺ نے سخت برہمی کا اظہار فرمایا تھا۔

چنانچہ تحفۃ الاحوذی میں ہے:

قَالَ السَّيِّدُ جَمَالُ الدِّينِ وَوَجْهُ التَّوْفِيقِ بَيْنَ النَّهْيِ عَنِ الِاشْتِغَالِ بِمَا جَاءَ عَنْهُمْ وَبَيْنَ التَّرْخِيصِ الْمَفْهُومِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْمُرَادَ بالتحدث ها هنا التَّحَدُّثُ بِالْقَصَصِ مِنَ الْآيَاتِ الْعَجِيبَةِ كَحِكَايَةِ عَوْجِ بْنِ عُنُقٍ وَقَتْلِ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْفُسَهُمْ فِي تَوْبَتِهِمْ مِنْ عِبَادَةِ الْعِجْلِ وَتَفْصِيلِ الْقَصَصِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْقُرْآنِ لِأَنَّ فِي ذَلِكَ عِبْرَةً وَمَوْعِظَةً لِأُولِي الْأَلْبَابِ وَأَنَّ الْمُرَادَ بِالنَّهْيِ هُنَاكَ النَّهْيُ عَنْ نَقْلِ أَحْكَامِ كُتُبِهِمْ لِأَنَّ جَمِيعَ الشَّرَائِعِ وَالْأَدْيَانِ مَنْسُوخَةٌ بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم انتهى وحکاية عوج بن عنق كذب محض لا اصل لها. (ص376)

’’ خلاصہ کلام یہ کہ مذاہب باطلہ اور منسوخہ لٹریچر کا مطالعہ مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ