سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) تعویذ گنڈے

  • 13501
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2057

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی و محترمی جناب مولانا صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مہربانی فرم کر مندرجہ سوالات کے جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دے کر مشکور فرمائیں۔ سوالات یہ ہیں۔

(1)یہ جو آج کل اپنے آپ لوگ عامل کہلاتےہیں۔ جنات کے ذریعے غیب کی چیزوں کا پتہ چلانا تعویز دینا اور اس قسم کے کاروبار کرنا دین میں شامل کررکھے ہیں ان کا دین میں کہاں تک وجود ہے؟

(2)مومن کی ناراضگی اپنے چھوٹے بڑے سے کتنی دیر تک رکھنی چاہیے؟

(3) کیا جو اپنی ساری باتیں ختم کرکے جس کے گھر چلائے وہ جا کر کہے کہ میں تو آگیا ہوں آپ کی شفقت کی ضرورت ہے۔ ان کو کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ ایسے لوگ محض جعلساز مکاز دغاباز اورجھوٹے ہیں کیونکہ غیب کا علم نہ تو کسی نبی مرسل کو ہوتا ہے اور نہ ملک مقرب کو اور نہ کسی جن کو۔ جب اللہ تعالی کے سواکسی انسان او رجن کو علم غیب ہی نہیں تو جنات کے ذریعہ جو باتیں بھی بتائی جائیں گی وہ محض جھوٹ او رافتراء کے سوا کچھ نہیں ہوگا چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَر‌ضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَما يَشعُر‌ونَ أَيّانَ يُبعَثونَ  ﴿٦٥﴾...سورة النمل

’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟ ‘‘

اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب نہیں تھا۔ تو بتائیے جب سیدالرسل کو علم غیب نہ تھا تو پھر کوئی پیر شہید مجذوب سالک عابد کاہن نجومی اور یہ نام نہاد عامل جنات کس شمارو قطار میں ہیں۔ اور خود جنوں کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ بھی علم غیب نہیں رکھتے، چنانچہ جنات مکان کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے اور حضرت سلیمان﷤ ان کی نگرانی فرما رہے تھے۔ عصار پر سہارا تھا اسی عالم میں حضرت سلیمان﷤ وفات پاگئے۔ مگر لاٹھی کے سہارے لمبی مدت تک زندوں کی طرح کھڑے رہے پھر ایک مدت کے بعد جب گھن نے لکڑی کو کھالیا تو ان کا جسدمبارک زمین پر گر پڑا تو پھر کہیں جاکرجنات کو ان کی وفات کا علم ہوا۔ اور جنوں کو یہ ماننا پڑا کہ کہ ہم غیب دانی کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں چنانچہ سورۃ سبا میں ہے:

﴿فَلَمّا قَضَينا عَلَيهِ المَوتَ ما دَلَّهُم عَلىٰ مَوتِهِ إِلّا دابَّةُ الأَر‌ضِ تَأكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمّا خَرَّ‌ تَبَيَّنَتِ الجِنُّ أَن لَو كانوا يَعلَمونَ الغَيبَ ما لَبِثوا فِى العَذابِ المُهينِ ﴿١٤﴾... سورة سبا

’’ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کی عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وه غیب دان ہوتے تو اس کے ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ‘‘

ان تینوں آیات مقدسہ سےمعلوم ہوا کہ نبیوں فرشتوں اور جنوں کو غیب کی باتوں کا کچھ پتہ نہیں ، بتائیے ایسی صورت میں ان نام نہاد نجومیوں رمالوں پانڈوں کا ہنوں اور عالموں کے زٹلیات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ، یہ سب جھوٹے اورافتراء پر داز اور جعل ساز لوگ ہیں ان لوگوں کے پاس جانا اپنے ایمان کا ستیاناس کرنا ہے۔ جہاں تک قرآن وحدیث پر مشتمل آیات کے تعویذوں کا تعلق ہے تو ان کا نہ لٹکانا ہی افضل ہے ، جیسا کہ نواب صدیق الحسن نے لکھا ہے کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعویز لکھنا ثابت نہیں۔ البتہ آیات اور احادیث پڑھ کر پھونکنا بلاشبہ جائز ہے۔ تاہم غیر شرعی تعویز گنڈے بہرحال ناپاک دھندے ہیں اس سے حدلازم ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے جوکاہن کی تصدیق کرتا ہے تو اس نے شریعت کے ساتھ کفر کیا: فقد کفر بما انزل علی محمدﷺ

2۔زیادہ سے زیادہ تین روز تک ناراض رہ سکتا ہے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ناراض رہنا اور گفتگو بند رکھنا شرعاً جائز نہیں۔ سنن ابی داؤد میں ہے:

«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثَةٍ، فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ»(ابوداؤد)

’’سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ مقاطعہ ( بائیکاٹ) رکھے پس جب اس کو ملے تو تین بار السلام علیکم کہے اگر وہ اس کا جواب نہ دے۔( صلح نہ کرے) تو اس طرح بائیکاٹ کا سارا گناہ جواب نہ دینے والے پر ہوگا۔ ہاں اگر اس پر ظلم ہوا ہو تو اس کی تلافی بھی کرے اور اگر بائیکاٹ کا سبب دینی امر ہو تو ا س کا حکم دوسراہے۔

3۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ صلح اور سلام کی پیش رفت کرنے والے کا خیر مقدم کریں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے  اس کی آمد کی قدر کریں۔ ورنہ سخت گناہ گار گے۔ جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص203

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ