سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) عقیدہ حاضر ناظر

  • 13500
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2289

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولوی ابوداؤد محمد صادق حنفی بریلوی نے آنحضرتﷺ کے حاضر ناظر ہونے کے ثبوت میں ایک اشتہار لکھا ہے، جس کے کالم نمبر2 میں لکھا ہے کہ :

﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم﴾

اس آیت مبارکہ میں مومنین کے ساتھ نبی پاکﷺ کے ایسے قریب اور نزدیکی کا بیان ہے کہ جس سے زیادہ قریب و نزدیکی نہیں ہوسکتی۔ جب آپ مومنوں کی جانوں سے بھی ان کے اتنے قریب  و نزدیک ہیں تو پھر آپ کے حاضر و ناظر ہونے میں کیا شبہ ہوسکتاہے؟ تفسیر معالم خازن، مظہری وغیرہ میں اس آیت کےتحت سرکار کا اپنا ارشاد منقول ہے کہ ’’ نہیں  کوئی مومن مگر یہ کہ دنیا و آخرت میں سب لوگوں سے بڑھ کر اس کے قریب ہوں۔ اگر چاہو تو یہ آیت﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم﴾ پڑھو۔

مزید فرمایا: ’’ ان اولی الناس بی المتقون من کانوا وحیث کانوا‘‘ مشکوۃ المصابیح ص263...... آپ اس اقتباس کا محققانہ طریق سے جواب دیں اور ’’ ترجمان الحدیث‘‘ میں شائع فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ باطل مکاتب فکر اور شرک کے رسیا حضرات کی ایک خاص تکنیک اور مخصوص ذہنیت ہوتی ہے، جوان تحریروں میں صاف نظر آتی ہے اور یہ وہ ہے کہ دلائل و براہین کے نام سے جعل سازی ، خدع ، عیاری اور فریب کاری، بس یہی ان کا مبلغ علم اور سرمایۂ تحقیق ہوتاہے۔ چنانچہ یہی ذہنیت یہاں بھی کار فرماہے۔ اگر فرصت ہوتی تو میں اس اقتباس پر مفصل تبصرہ کرتا، تاہم تعمیل ارشاد میں مظہری اور مرقات شرح مشکوٰۃ کی پوری عبارت پیش خدمت ہے ۔ آپ اس عبارت میں مولوی ابوداؤد صاحب بریلوی کی دیانت داری کا اندازہ کرسکیں گے۔ چنانچہ قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی مرحوم اپنی تفسیر مظہری میں رقم طراز ہیں:

النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ يعنى من بعضهم لبعض فى نفوذ الحكم عليهم ووجوب طاعته عليهم فلا يجوز اطاعة الآباء والامهات فى مخالفة امرالني صلي الله عليه وسلم وهو اولي بهم في الحمل على ماكانت طاعتهم للنبى اولى بهم من طاعتهم لانفسهم وذالك لانه عالم بمصالحهم ونجاحهم قال الله تعالىٰ حريص عليكم بالمؤمنين رؤف رحيم بخلاف انفسهم فانها امارة بالسوء الا من رحم الله وهو ظلوم وجهول فيجب عليهم ان يكون الرسول احب اليهم من انفسهم فامره انفذ عليهم من امرها وشفقته اوفر م شفقتها عليها قال رسول الله صلي الله عليه وسلم قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ حديث انس و عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَى بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ. رواه البخارى، تفسيرمظهري ص308، ج:7، سورة احزاب، انظر ايها القارى المحترم كيف صدرح صاحب المظهري القاضي ثناء الله  الحنفي الفانى فتى معنى النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ

’’ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ کہ جنگ تبوک کے وقت آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے کہا کہ ہم اپنے والدین سے اجازت طلب کریں گے۔ اگر اجازت مل گئی تو جہاد کےلیے نکل کھڑے ہوں گے۔ تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ والدین کی اطاعت پر نبی ﷺ کی اطاعت مقدم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کی تعلیم کے مطابق رسول اکرمﷺ مومن کے مصالح اور مفاسد کے متعلق زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس﷜ اور حضرت ابوہریرہ﷜ کی احادیث کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفسوں اور خواہشات پر نبی اکرمﷺ کی محبت غالب ہونی چاہیے۔‘‘

مشکوٰۃ کےحوالہ سے لکھی گئی حدیث ص263 پر نہیں بلکہ ص446 پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے براہ راست مشکوٰۃ سے حدیث نہیں لکھی بلکہ کسی رسالہ سے نقل کی ہے ورنہ وہ صفحہ نمبر غلط نہ لکھتے۔

بہر حال اس حدیث کا مطلب ملاعلی قاری حنفی مرحوم کی مرقات شرح مشکوٰ سےنقل کیے دیتا ہوں ۔ واضح رہے کہ ملا علی قاری کی مرقات پر حنفی حضرات بڑا ناز کرتے ہیں ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ مشکوٰۃ کی شرح میں مرقات سب سے اچھی اور آخری شرح ہے ۔ حضرت قاری لکھتے ہیں:

إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي ") أَيْ: بِشَفَاعَتِي أَوْ أَقْرَبَ النَّاسِ إِلَى مَنْزِلَتِي (" الْمُتَّقُونَ، مَنْ كَانُوا ") : جَمَعَ بِاعْتِبَارِ مَعْنَى مَنْ، وَالْمَعْنَى كَائِنًا مَنْ كَانَ عَرَبِيًّا أَوْ عَجَمِيًّا أَبْيَضَ أَوْ أَسْوَدَ شَرِيفًا أَوْ وَضِيعًا (" وَحَيْثُ كَانُوا ") أَيْ: سَوَاءٌ كَانُوا بِمَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ أَوْ بِالْيَمَنِ وَالْكُوفَةِ وَالْبَصْرَةِ فَسَّرَهُ، فَانْظُرْ إِلَى رُتْبَةِ أُوَيْسٍ الْقَرَنِيِّ بِالْيَمَنِ عَلَى كَمَالِ التَّقْوَى، وَحَالَةِ جَمَاعَةٍ مِنْ أَكَابِرِ الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ مِنْ حِرْمَانِ الْمَنْزِلَةِ الزُّلْفَى، بَلْ مِنْ إِيصَالِ ضَرَرِهِمْ إِلَيْهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مِنْ بَعْضِ ذَوِي الْقُرْبَى، وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ لَا يَضُرُّكَ بُعْدُكَ الصُّورِيُّ عَنِّي مَعَ وُجُودِ قَوْلِكَ الْمَعْنَوِيِّ بِي، فَإِنَّ الْعِبْرَةَ بِالتَّقْوَى كَمَا يُسْتَفَادُ مِنْ إِطْلَاقِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} [الحجرات: 13] مِنْ غَيْرِ اخْتِصَاصٍ بِمَكَانٍ أَوْ زَمَانٍ أَوْ نَوْعِ إِنْسَانٍ فَفِيهِ تَحْرِيضٌ عَلَى التَّقْوَى الْمُنَاسِبَةِ لِلْوَصِيَّةِ عِنْدَ الْمُفَارَقَةِ الصُّغْرَى وَالْكُبْرَى، وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ} [النساء: 131] مَعَ مَا فِيهِ مِنَ التَّسْلِيَةِ لِبَقِيَّةِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ لَمْ يُدْرِكُوا زَمَنَ الْحَضْرَةِ وَمَكَانَ الْخِدْمَةِ هَذَا الَّذِي سَنَحَ لِي فِي هَذَا الْمَقَامِ مِنْ حِلِّ الْكَلَامِ عَلَى ظُهُورِ الْمَرَامِ.وقال الطيبى رحمة الله لعل الالتفات كان تسليا لمعاذ بعد مانعى نفسه اليه يعني اذا رجعت الى المدينة بعدى فاقتد باولى الناس وهم المتقون وكنى به عن ابي بكر الصديق ونحوه-مرقاة شرح مشكاة ص:52،51 ج:5، مطبع البابي مصر،

اس عبارت کا اصل مطلب یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے اپنی آخری وصیت کرکے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ شاید تم میری قبر ہی دیکھو گے تو حضرت معاذ ﷜ فرط جذبات سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔اس پر آپﷺ نے حضرت معاذ﷜ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ بھئی رونے کی کیا بات ہے، کیونکہ آپ سمیت تمام عربی، عجمی ، مکی ، مدنی، کوفی ، بصری اور یمنی تمام پرہیز گار بہ نسبت  اوروں کے میری شفاعت کے زیادہ مستحق ہوں گے۔ یا وہ میرے نزدیکی اور پڑوسی ہوں گے۔ قرب اور بعد کی مسافت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہی صحیح ہے کیونکہ اویس قرنی باوجود دور ہونے کے تقویٰ کی وجہ سے بہ نسبت میرے کافر رشتہ داروں اور منافقین مدینہ کے میرے زیادہ قریب ہیں۔ اور میری شفاعت کے لیے قرب اور بعد کا اعتبار نہیں بلکہ قابل اعتبار تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ان اکرمکم عندالله اتقاکم

گویا اس وصیت میں آپ نے تقویٰ اور پرہیزگاری کی رغبت دلائی ہے۔ جیسے کہ ’’ولقد وصینا الذین اوتوا الکتاب‘‘ میں مفارقت صغریٰ( سفر) اور مفارقت کبریٰ(موت) میں تقویٰ کی وصیت فرمائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث میں بعد میں آنے والی امت کو بھی تسلی دی گئی ہے اگرچہ وہ آنحضرت ﷺ کی مجلس کے فیوض اور دیدار سے محروم ہیں تاہم وہ بھی تقویٰ کے لحاظ سے میرے قریب ہوں گے۔ اور علامہ طیبی نے کہا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: اے معاذ! جب تم میری موت کے بعد مدینہ واپس آؤ تو بہترین لوگوں یعنی ابوبکر صدیق﷜ اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کی اقتداء کرنا۔‘‘

اب بتائیے کہ اس حدیث میں حاضر ناظر ہونے کی کون سی بات ہے؟ اگر آپﷺ بعد ازوصال بھی حاضر ناظر ہوتے تو آپ معاذؓ کو فرمادیتے کہ میں دنیا سے جانے کے بعد بھی آپ کے پاس رہوں گا، قبر کا نام لینے اور تقویٰ کی وصیت کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور شفاعت کی تسلی دینے کاکیا مطلب تھا؟ اور بقول علامہ طیبی ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ایسے پرہیز گار لوگوں کی اقتدا کاحکم چہ معنی دارذ؟

بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آیت کا یہی معنی ہے کہ آپ حاضرناظر ہیں، تو پھر تمام فوت شدہ مسلمان اورزندہ بھی حاضر ناظر ہیں۔ کیونکہ آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں:

﴿وَأُولُوا الأَرحامِ بَعضُهُم أَولى بِبَعضٍ فى كِتـبِ اللَّهِ مِنَ المُؤمِنينَ وَالمُهـجِرينَ...﴿٦﴾... سورة الأحزاب

گویا ہم سبھی ہر جگہ حاضرناظر ہوئے۔ تو پھر آپ کی خصوصیت کیا رہی؟ علاوہ ازیں مولیٰ بمعنی’’ ذمہ دار‘‘ بھی آتا ہے۔ جیسے حضرت ابوہریرہ﷜ کی حدیث میں آیا ہے کہ’’ مقروض مرنے والے اور بے سہارا بچوں کا میں ذمہ دارہوں۔‘‘

چنانچہ صحیح بخاری کے حاشیہ پر امام ابن جوزی نے مولی ٰ کے معنی ’’ ولی‘‘ کیے ہیں۔ ملاحظہ ہو صحیح بخاریں ص:323، ج:1، باب الصلوٰۃ علی من شرک دینا اصل الفاظ حاشیہ میں یہ ہیں:

’’ انا مولاہ ای ولیه‘‘

’’یعنی ( آنحضرتﷺ نے فرمایا) میں مقروض کے قرضہ کا ضامن ہوں۔‘‘

اور حضرت ابوہریرہ﷜ کی دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:

’’من ترک کلا فالینا‘‘ (بخاری)

لہذا معلوم ہواکہ ’’ ولی بالمؤمنین‘‘ کا معنی حاضر ناطر ٹھہرانا قطعاً صحیح نہیں بلکہ یہ تحریف قرآن ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس جرم عظیم سے محفوظ فرمائیں۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص200

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ