السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں آنحضرت ﷺ کا شق صدر کس کس مقام پر اور کتنی مرتبہ ہوا؟ احادیث نبویہ کی روشنی میں واضح فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اقول وبالله التوفيق! شق صدر کےمتعلق احادیث اور روایات کے تتبع اور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ آنحضرت ﷺ پر شق صدر کی کیفیت کوئی پانچ مرتبہ گزری ہے ۔ چنانچہ ان احادیث کو محدثین اور سیرت نگاروں نے مع جرح و تعدیل اپنی اپنی تالیفات میں نقل فرمادیا ہے۔ چنانچہ طالب تفصیل کو مواہب ، زرقائی ، مسن احمد ، ابو داؤد ، طیالسی ، دارمی ، دلائل ابو نعیم ، دلائل بیہقی ، ابن عساکر ، سنن دارمی، مجمع الزوائد ، زاد المعاد، فتح الباری ، طبقات ابن سعد ، سیرت ابن ہشام ، روض الا نف ، کنز العمال کی طرف مراجعت کرنی ہوگی ۔ اردو خواں حضرات سیرت النبی ﷺ از سید سلیمان ندوی جلد 3 کا مطالعہ کریں ۔ تا ہم قدرے تفصیل پیش خدمت ہے:
1۔ پہلی مرتبہ آپ کا شق صدر اس وقت ہوا جب آپ ﷺ کی عمر شریف پانچ سال کی تھی اور آپ مائی حلیمہ سعدیہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے۔
2۔ دوسری بار جب آپ کی عمر شریف دس برس کی تھی ۔
3۔ جب آپ بیس سال کے تھے۔
4۔ آغاز نبوت کے زمانہ میں ۔
5۔ جب آپ کو معراج کرائی گئی ۔
دوسری ، تیسری اور چوتھی دفعہ والی احادیث انتہائی کمزور اور ارباب جرح و تعدیل نے ان پر تنقید فرمائی ہے ۔ بہر حال دس سال میں شق صدر والی روایت یہ ہے :
((عن أبي بن كعب عن أبي هريرة قال يا رسول الله ما أول ما رأيت من أمر النبوة فاستوى رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا وقال لقد سألت يا أبا هريرة إني لفي صحراء ابن عشرين سنة وأشهر إذا بكلام فوق رأسي وإذا برجل يقول لرجل أهو هو فاستقبلاني بوجوه لم أرها لخلق قط وثياب لم أرها على أحد قط فأقبلا إلى يمشيان حتى أخذ كل واحد منهما بعضدي لا أجد لأخذهما مسا فقال أحدهما لصاحبه أضجعه فأضجعاني بلا قصر ولا هصر أي من غير إتعاب فقال أحدهما لصاحبه أفلق صدره ففلقه فيما أرى بلا دم ولا وجع فقال له أخرج الغل والحسد فأخرج شيئا كهيئة العلقة ثم نبذها فطرحها فقال له أدخل الرأفة والرحمة فإذا مثل الذي أخرج أي ليدخله شبه الفضة ثم نقر إبهام رجلي اليمنى وقال أغد واسلم فرجعت أغدو بها رأفة على الصغير ورحمة على الكبيررواه عبد الله ورجاله ثقات وثقهم ابن حبان ))(مجمع الزوائد)
حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبوت کے ابتدائی نشان کے متعلق آنحضرت ﷺ نے ابوہریرہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ دس برس اور چند مہینوں کا تھا کہ میدان میں دو فرشتے میرے سر پر آئے ایک کہنے لگا یہی ہمارامطلب ہیں ؟ دوسرے نے کہا : ہاں !وہ دونوں بڑے خوش شکل بڑے معطر اور خوش لباس تھے اور پھر انہوں نے اس طرح میرے ہاتھ پکڑے کہ مجھے پتا بھی نہیں چلا ، پھر انہوں نے بلاتشدد مجھے زمین پر لٹا دیا اور میرا سینہ چاک کیا کہ نہ خون نکلا اور نہ ہی تکلیف محسوس ہوئی ۔ ایک نے اپنےساتھ سے کہا کہ سینہ سے حسد اور کینہ نکال لیجیے تو اس نے خون کا سا لوتھڑا نکال کر پھینک دیا تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ حسد اور کینہ کی جگہ آپ کے سینہ مبارک میں رحمت شفقت رکھ دیجیے ۔ چنانچہ اس نے کوئی نقرئی ہر چیز میرے سینہ پر چھڑک دی ۔‘‘
اس روایت کو سند کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے ۔سلیمان فرماتے ہیں ، زوائد مسند احمد ، ابن حبان ، حاکم ، ابن عساکر اور ابو نعیم میں یہ حدیث موجود ہے ۔ لیکن ان کتابوں کی مرکزی سند یہ ہے : معاذ بن محمد بن معاذبن محمد بن ابی کعب عن ابيه محمد عن جده معاذبن محمد عن ابي كعب – کنز الاعمال ص 96،ج6 ، باب الاعلام النبوۃ.....یہ سند سخت ضعیف اور مجہول راویوں پر مشتمل ہے ۔ چنانچہ محدث علی بن مدینی کتاب العلل میں فرماتے ہیں : ’’حديث مدنى واسناده مجهول كله لانعرف معاذ ولا اباه ولا جده ‘‘.
کہ ’’ یہ مدنی حدیث ہے اور اس کی پوری حدیث مجہول راویوں پر مشتمل ہے ، نہ تو ہمیں معاذ کا علم ہے کہ وہ کون ہے ؟ نہ اس کے باپ محمد کو اور نہ اس کے دادا معاذ کو ہم جانتے ہیں۔
اورابونعیم نے لکھا ہے :
هذا الحديث تفرد به معاذ بن محمد و تفرد بذكر السند الذى شق فيه عن قلبه(دلائل النبوة ص:71)
کہ ’’ معاذ بن محمد اس حدیث میں منفرد ہے ۔ اس کے سوا دس سال میں شق صدر کو کسی نے بیان نہیں کیا۔‘‘
اور کنزالاعمال میں بھی اس حدیث کوضعیف لکھا گیا ہے لہذا یہ صحیح ثابت نہ ہوسکا۔
2۔ بیس سال کی عمر شق صدر کا واقعہ جن روایات میں مذکورہ ہے وہ ضعیف ہیں اور ان کی مرکزی سند بھی معاذ بن محمد بن معاذ ہی ہے جیسے کنزالاعمال میں یہ سند مذکور ہے۔ اور سیدسلیمان فرماتے ہیں کہ بیس برس کی عمر میں شق صدر کی روایت محدثین اور ارباب سیر کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔
دلائل ابونعیم، دلائل بیہقی، مسند حارث اور مسند طیالسی میں کچھ روایات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہیں ، جن میں آغاز ِ وحی کے موقع پر بھی شق صدر کا واقعہ مذکور ہے مگر یہ روایتیں بوجوہ قابل قبول نہیں:
1۔ آغاز ِ وحی والی حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سب سے زیادہ مفصل ، صحیح اور محفوظ بیان ہوئی ہیں۔ مگران میں آغازِ وحی اور غار حرا میں جبریل امین کی پہلی آمد پر شق صدر کا کچھ ذکر نہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مفصل اور اصح حدیث میں شق صدر کا مذکور نہ ہونا اس واقعہ کی بے اعتباری ثابت کرتا ہے۔
2۔ ان روایات کے عدم قبول کی وجہ ثانی یہ ہے کہ ابوداؤد طیالسی، مسند حارث، دلائل نبوت، بیہقی، دلائل ابونعیم کی مرکزی سند ابوعمر ان الجونی ہے اور وہ سخت ضعیف ہے۔ پوری سند یہ ہے :
ابو داؤد قال حماد بن سلمة قال اخبرني ابو عمران الجوني عن رجال عن عائشة رضى الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اعتكف هو وخديجة شهرا بحراء فوافق شهر رمضان..... نحبط جبريل الي الارض وبقيٰ ميكائيل بين السماء والارض قال فاخذني جبريل فصلقني علاوة القفاشق عن بطني فاخرج منه ماشاء الله ثم غسله في طست من ذهب ثم كفاني كما يكفأ الاناء ثم ختم في ظهري حتي وجدت مس الخاتم.( طيالسي ص:215، 216، مرويات عائشة)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک مہینہ غار میں بطور اعتکاف ٹھہرے کہ رمضان آگیا...... حضرت جبرئیل زمین پر تشریف لائے جب کہ حضرت میکائیل فضا میں رہے ۔ چنانچہ جبرئیل آئے مجھے گردن کے بل لٹایا اور میرا سینہ چاک کیا ، کوئی چیز باہر نکالی اور اس کو سونے کی طشتری میں دھویا اور پھر میری پشت پر ختم نبوت کی مہر کنندہ کی جسے میں نے محسوس کیا۔‘‘
آپ نے ملاحظہ فرمایا، اس سند میں ایک راوی ابوعمران الجونی ہے جس کے شیخ کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کون ہیں؟ تاہم ابوداؤد طیالسی اور ابونعیم ابوعمران الجونی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان والا شخص یزیدبن بانیوس ہے۔ مسند ابوداؤد طیالسی ص217 اور دلائل ابونعیم ص69 پر مذکور ہے، اگر یہ راوی یزید بن بانیوس نہیں ہے تو پھر یہ سند منقطع ہے جو قابل حجت نہیں ہوتی۔ اور اگر یہ راوی وہی ہے تو سخت شیعہ اور قاتل حضرت علی ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے:
ما حدث عنه سوى ابي عمران الجوني قال الدولابى وهون من الشيعة الذين قاتلوا علياً ونقل ابن القطان هذا القول عن البخاري فيه قال ابوداؤد كان شيعياً قال ابن عدى احاديثه مشاهير وقال الدارقطنى لابأس به. (دلائل النبوة ص:71)
’’ یعنی یزید بن بانیوس سے روایت کرنے میں ابوعمران الجونی متفرد ہے ۔ علامہ دولابی کہتے ہیں کہ یہ یزید ان شیعوں میں سے ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ امام یحی بن القطان نے اس کے متعلق یہ قول امام بخاری سے بھی نقل کیا ہے ۔ امام ابوداؤد نے بھی اس کو شیعہ قرار دیا ہے تاہم اور دارقطنی نے اس کی قدرے توثیق کی ہے، مگر تعدیل پر جرح مقدم ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ شق صدر کا یہ واقعہ بھی صحیح نہیں۔
اب رہ گئیں وہ روایات و احادیث جن میں حلیمہ سعدیہ کے ہاں قیام کے زمانہ میں شق صدر کا ذکر خیر ہے۔ اس سلسلہ میں آٹھ سندیں مختلف طریقوں سے صحابہ کرام تک جا پہنچتی ہیں ان میں صرف دو سندیں صحیح ہیں اور باقی ضعیف ہیں۔
یہ سند اس طرح ہے کہ : جہم بن ابی جہم عبداللہ بن جعفر سے اور وہ خود حلیمہ سعدیہ سے راوی ہیں۔ یہ حدیث سند ابن اسحاق اور دلائل ابونعیم میں ہے۔ جہم بن ابی جہم مجہول ہے اور عبداللہ بن جعفر کی حلیمہ سعدیہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے اور ابن اسحاق جہم بن ابی جہم کا شک ظاہر کرتا ہے ۔ اس نے کہا: عبداللہ بن جعفر نے خود مجھ سے کہا یا ان سے سن کرکسی اور نے مجھ سے کہا۔ ابونعیم میں گویہ شک مذکور نہیں ہے بلکہ وہ تصریحاً عبداللہ بن جعفر کا نام لیتا ہے، مگر اس میں اس کے نیچے کے راوی مجروح ہیں۔(سیرت النبی سید سلیمان ندوی ص:334، ج3، البدایہ والنہایہ، ج2ص:273، سیرت ابن ہشام، ص:164.)
1....قال ابن إسحاق حدثني جهم ابن أبي الجهم مولى لامرأة من بني تميم ، كانت عند الحارث بن حاطب ، وكان يقال : مولى الحارث بن حاطب ، قال : حدثني من سمع عبد الله بن جعفر بن أبي طالب يقول : حدثت عن حليمة
ب۔...... دوسری سند واقدی کی ہے۔ ابن سعد نے اس کی سند کو یوں بیان کیا ہے :
"اخبرنا محمد بن عمر عن اصحابه مكث عنهم سنقين حتي فطم وكانه ابن اربع سنين"
یہ سند بھی ضعیف ہے اوراس کی دو وجہیں ہیں:
محمد بن عمر واقدی ضعیف بلکہ بقول بعض کذاب ہے:
قال احمد بن حنبل هو كذاب يقلب الاحاديث قال ابن معين ليس بثقة وقال مرةلايكتب حديثه قال البخارى وابوحاتم متروك وقال ابو حاتم ايضاً والنسائى يضع الحديث. (ميزان الاعتدال ج:3ص:663، تحفة الاحوذى)
’’بقول امام احمد واقدی کذاب ہے، یحیی بن معین نے ضعیف کہا ہے ۔ امام بخاری اور ابوحاتم نے اس کو متروک قرار دیا ہے۔ ابوحاتم اور نسائی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حدیثیں تیار کیا کرتا تھا۔‘‘
تاہم بعض نے اس کی توثیق بھی کیا ہے لیکن جرح تعدیل پر مقد ہوتی ہے۔ امام احمد، بخاری، ابوحاتم، یحی بن معین اور نسائی ایسے ماہرین علم حدیث اور کاملین فن جروح و تعدیل کی یہ جرحیں یوں بے وزن نہیں بنائی جاسکتیں۔
اگر واقدی پر جرح نہ بھی ہوتی تب بھی یہ سند منقطع ہے۔ مؤرخ واقدی نے’’ عن اصحابہ‘‘ کہہ کرا پنے سے اوپر کی سند کو یوں ہی گول کردیا ہے۔
ج.... ابو نعیم نے ایک اور سلسلہ کےاس واقعہ کو بیان کیا ہے ۔ جو یہ ہے کہ عبدالصمد بن محمد السعدی اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ ایک شخص سے جو حضرت حلیمہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا بیان کرتے ہیں ، یعنی یہ تمام سند مجہول سے۔(سیرت النبی، ص:334، ج:3)
د..... ابن عساکر اور بیہقی نے ایک اور سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ واقعہ نقل کیا ہے ، مگر اس سند میں محمد بن زکریا الغلابی جھوٹا اور وضاعی راوی ہے۔ اس کا شمار قصہ گویوں میں ہے۔(سیرت النبی ص:232، ج:3)
ہ....... ابن عساکر نے شداد بن اوس صحابی کے واسطے سے ایک نہایت طویل داستان بیان کی ہے۔
البدایہ والنہایہ ص: 276، ج:2 میں اس داستان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں مذکورہے کہ قبیلہ بنی عامر کے ایک پیر مرد نے خدمت نبوی میں حاضر ہوکر آپؐ سے ابتدائی حالات پوچھے۔ آپ نے پورا پورا حال بیان کردیا۔ منجملہ اکے ایک واقعہ پر اپنے بچپن کا شق صدر کا بھی بیان کیا۔ امام ابن عساکر اس کو غربت یعنی ثقات راویوں کے خلاف کہتےہیں۔
علاوہ ازیں اس سلسلہ سند میں ایک بے نام راوی ہے۔ اس سے اوپر ایک اور راوی ابوالعجفاء قابل اعتراض ہے جو شداد بن اوس صحابی سےاس قصہ کا سننا بیان کرتا ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں:
" ابن سيرين عن ابى العجفاء عن ابيه فى حديثه نظر."(تاریخ صغیر امام بخاری ص:13، طبع الہ آباد۔ میزان الاعتدال ص155 ج4، ابو العجفاء السلمی یقال اسمہ الہرم قال ابو احمدالحاکم لمن حدیثہ بالغائم، میزان الاعتدال ص55، ج4۔‘‘
’’ ابو عجفاء کا نام ہرم ہے۔ ابو احمد حاکم نے کہا ہے کہ اس کی حدیث ٹھیک نہیں ہے۔ ابو یعلیٰ او رابن عساکر نے مکحول شامی کے واسطہ سے حضرت شداد بن اوس سے بعینہ اس واقعہ کو ایک اور سند کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں کوئی مجہول راوی نہیں ہے ۔ تاہم مکحول اور شداد کے درمیان ایک راوی ساقط ہے۔‘‘
یعنی یہ سند منقطع ہے کیونکہ مکحول نے حضرت شداد کا زمانہ نہیں پایا۔ مکحول تدلیس میں بدنام تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مکحول اور شداد کےدرمیان یہی ابوعجفاء تھا۔ مکحول نے اس کو ضعیف جان کر بیچ سے نکال باہر کیا۔(سیرت النبی، ص:335، ج:3)
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً ، فَقَالَ : هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ لأَمَهُ ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ ، فَقَالُوا : إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ " ، قَالَ أَنَسٌ : وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ .))
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بچپنے میں جب بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو جبرئیل امین نے آکر آپ کو زمین پر چت لٹایا اور سینہ چاک کرکے آپ کادل مبارک با ہر نکالا اور پھر اس کے اندر سے جما ہوا کچھ خون نکالا اور کہا یہ آپ کے دل میں شیطان کاحصہ ہے ۔ پھرایک طلائی طشتری میں آبِ زم زم سے آپ کے قلب مبارک کو غسل دیا اور پھر اس کو شگاف سے ملایا اور اس کی اصلی جگہ پر اسے رکھ دیا۔ اتنے میں دو سرے بچوں نے دوڑ کر آپ کی رضائی والدہ کو اطلاع دی کہ محمدقتل کردیا گیا ہے تو انہوں نے آکر آپ کا اڑا ہوا رنگ دیکھا۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشان دیکھے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں شق صدر کا ذکر ہے مگر شق صدر کی حکمت بیان نہیں کی گئی کہ شق صدر کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
چنانچہ اس کی حکمت حضرت انس ہی سے صحیح بخاری کی ذیل کی حدیث میں منقول ہے:
((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَفَرَجَ صَدْرِي ، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا ، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ..... الخ))
’’حضرت انس بن مالک حضرت ابوذر سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ایک رات مکہ مکرمہ میں اپنے گھر محو خواب تھا کہ جبرئیل امین میرے گھرکی چھت پھاڑ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرا سینہ چاک کیا، آبِ زمزم سے دھویا اور پھر ایمان وحکمت سے بھری ہوئی ایک طلائی طشتری میرے سینہ میں انڈیل دی اور پھر اسے بند کردیا ۔‘‘
حدیث اور سیرت کے دفاتر کو سرسری نظرسے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ آنحضرت ﷺ پر شق صدر کی کیفیت کوئی پانچ مرتبہ گزری ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ آپ کا شق صدر صرف دومرتبہ ہوا ہے ۔ ایک دفعہ مائی حلیمہ سعدیہ کے پاس بچپن میں اور دوسری بار معراج کے موقع پر۔باقی مواقع پر شق صدر والی روایات اصول روایت کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔
ہم نے شق صدر سے متعلق قدرے تفصیل اس لیے لکھی ہے کہ قارئین کرام کو بھی پیش نگاہ رکھیں اور منکرین حدیث کے زاویہ فکر کی بھی پیمائش کریں تاکہ معلوم ہوکہ انکار حدیث کے پس منظر میں قرآن عزیز کی کون سی خدمت یہ لوگ کررہے ہیں؟
اب منکرین حدیث کے حضرت انس کی اس حدیث پر شق صدر پر اعتراضات مع جواب ملاحظہ فرمائیے:
جب بچپن میں حضورﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو حضرت انس کہاں تھے؟ آپ ایک ایسے واقعہ کے عینی شاہد بنے ہوئے ہیں جوآپ کی پیدائش سے قریباً چھتیس برس پہلے ہوا تھا۔‘‘ (دوا اسلام ص:75)
بچپن میں شق صدر کی روایات حضرت انس کے علاوہ حضرت ابن عباس ، شداد بن اوس، عتبہ بن عبد سلمی وغیرہ صحابہ کرام سے بھی مروی ہیں۔ جیسے کہ سنن دارمی، البدایہ والنہایہ، مجمع الزوائد، ابو یعلیٰ ، ابن عساکر اور دوسری کتب میں منقول ہیں۔ اگرچہ روایات علی حدہ کچھ کمزور ہیں مگر جب ان کو حضرت انس کی اس صحیح حدیث کے ساتھ ملاکر دیکھاجائے تو ان میں ایک گونہ قوت پیدا ہوجاتی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ کہ یہ اعتراض صرف سرسری نظر کی پیداوار ہے۔ اگر حدیث انس کو بہ نظرا معان دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس صرف بچپنے میں شق صدر کا واقعہ بیان کررہے ہیں نہ کہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ شق صدر کے اس موقع پر میں بھی آپ کے پاس موجود تھا ۔ یعنی حضرت انس کا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ میں اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔ اور جس چیز کے عینی گواہ ہونے کا دعویٰ ہے وہ صرف یہ ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک شق صدر کے موقع پر بھی موجود ہوں۔ رہا یہ سوال کہ حضرت انس سے بہ نفس نفیس بیان فرما دیا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت انس نے کسی دوسرے صحابی سے سنا ہو او راس کا نام بغرض اختصار حذف کردیا ہو۔ اصول حدیث میں ایسی حدیث کو’’ مرسل صحابی‘‘ کہتےہیں اور حدیث مرسل صحابی بالاتفاق علماء ( اصول حدیث کے لحاظ سے) حجت ہوتی ہے۔( ملاحظہ فرمائیے: نزہۃ النظر ، تدریب الراوی، الفیہ عراقی، کفایۃ بغدادی اور مقدمہ ابن الصلاح.)
دل کے دو حصے ہیں......... دل ایک پمپ ہے...... یہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو ہاتھ اور پاؤں کی طرح لذت و الم کا احساس نہیں کرتا۔ نہ ہی وہ خیر و شر کا محرک ہے۔ تمام افکار، جذبات، خیالات اور تصورات کا مرکز دماغ ہے ، خیروشرکی تحریک یہیں پیدا ہوتی ہے اور ادارے یہیں بندھتے ہیں۔ اگر جبرئیل کا مقصد منبع شرکو مٹانا تھا تو دماغ کو چیرتا نہ کہ دل کو.......... اور دماغ کا مسکن کھوپڑی ہے نہ کہ سینہ۔‘‘ (دوا اسلام ، ص:75: 76)
جواب........ دل انسانی جسم میں سرمایۂ حیات ہے۔ اگر کسی چوٹ کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہوجائے تو فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔(علم الابدان ، ص:192، بحوالہ تفہیم الاسلام مولانا مسعود احمد کراچی)
آئے دن اخبارات میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں صاحب حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پاگئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا نہ ہوا ہے کہ حرکت قلب تو بند ہوگئی ہو، لیکن دماغ مسلسل مصروف کار رہا ہو اور بدستور رنج و الم، راحت و سرور اور غصہ و گھبراہٹ کا احساس کرتا رہے۔ اور یہ بھی آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ دماغ فیل ہوچکا ہوتا ہے لیکن دل اپنے کام جاری رکھتا ہے۔
نام نہاد اہل قرآن اگر قرآن عزیز میں تدبر کرتے تو بات ان کی سمجھ میں آجاتی۔ قرآنی کریم میں بیسیوں مقامات پر یہ تصریح ہے کہ وحی الہی کا مہبط قلب ہے نہ کہ دماغ۔ چنانچہ سنئے اور غور فرمائیے:
﴿مَن كانَ عَدُوًّا لِجِبريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلى قَلبِكَ بِإِذنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ وَهُدًى وَبُشرى لِلمُؤمِنينَ ﴿٩٧﴾... سورة البقرة
’’ جو جبرئیل کا دشمن ہے ( وہ بے انصاف ہے) کیونکہ جبرئیل تو وہ ہے جس نے قرآن پاک آپ کےدل پر اللہ تعالی کے حکم سے نازل کیا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام افکار وخیالات اور جذبات کا مرکز دل ہے نہ کہ دماغ۔ اگر ہوتا تو قرآن کا نزول دل پر نہ ہوتا بلکہ دماغ پر ہوتا۔ جب دل میں لذت و سرور اور زنج والم کا احساس ہی نہیں توقرآن کا اس پر نزول چہ معنی دارد؟..... معترض صاحب کا اعتراض حدیث کے بجائے قرآن پر غور کرنا چاہیے تھا۔
﴿إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ﴾
’’ اللہ تعالی سینوں میں دبی باتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘
اور یہ ایسی آیت ہے کہ اس میں کوئی تاویل بھی نہیں ہوسکتی۔
﴿لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِرونَ بِها...﴿١٧٩﴾... سورة الأعراف
’’ ان کے پہلو میں دل ہیں لیکن وہ ان کے ذریعے سمجھتے نہیں۔‘‘
اس آیت سے بھی معلوم ہواکہ افکار و جذبات اور جذبات و احساسات کا مرکز دل ہے دماغ نہیں۔ اور پھر اس دل کی جگہ بھی قرآن مجید نے بیان کردی ہے:
﴿أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـرُ وَلـكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ ﴿٤٦﴾...سورة الحج
’’ کیا انہوں نے زمین میں سیر وسیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان (واقعات) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وه دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ‘‘
اس آیت شریفہ سے معلوم ہواکہ غوروفکر، لذت و راحت او رخیالات وجذبات کا مرکز دل ہے جو سینے میں ہوتاہے.............. یعنی ان تباہ شدہ مکانات کے کھنڈر دیکھ کر کبھی انہوں نے غورو فکر نہ کیا نہ سچی بات ان کو کچھ آئی...... آنکھوں سے دیکھ کر دل سے غور نہ کیا تو ہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔ گوظاہری آنکھیں کھلی ہوں لیکن دل کی آنکھی اندھی ہیں تو گویا کچھ بھی نہ دیکھا کہ سب سے زیادہ خطرناک اندھا پن وہی ہے جس میں دل اندھے ہوجائیں۔
پہلی آیت میں قلب سمعی دماغ تاویل کی جاسکتی تھی، مگر آخری تین آیات میں خصوصاً آخری میں اس کی تاویل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بہر حال ان آیات بینات سے معلوم ہوا کہ وحی الہی کا مہبط و مرکز انسان کا دل ہے ، جو اس کےپہلو میں ہے نہ کہ دماغ جو اس کی کھوپڑی میں ہے، لہذا دل کا اپریشن ہی ضروری تھا، دماغ کو چیرنے کی ضرورت نہ تھی۔
ناصحا، اتنا تو سمجھ دل میں اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہونگے تو کیاتجھ سے بھی ناداں ہونگے
گزشتہ شمارہ میں ایک استفتاء کے جواب میں لکھا گیا تھا کہ قیامت کے روز ہر بچہ کو اس کے والد کےنام سے پکارا جائے گا، شمارہ ہذا میں مسئلہ مذکور مزید وضاحت سے پیش خدمت ہے۔
جن علماء کا موقف یہ ہے کہ قیامت کے روز ہر بچہ کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا، اپنے دعویٰ کے ثبوت میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
1۔ طبرانی میں ہے:
"عن ابن عباس ان الله يدعوا الناس يوم القيامة بامهاتهم سترا سنه علي عباده"
’’ کہ قیامت کےروز اللہ تعالی لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے بلائے گا تاکہ ولد الزنا لوگوں کی پردہ پوشی ہوسکے۔‘‘
مگر اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’ سندہ ضعیف جدا‘‘ (عون المعبود ص442، ج4، فتح الباری ص464 ، ج10)
’’اس حدیث کی سند سخت ضعیف ہے۔‘‘
محقق علامہ حافظ ابن القیم نے سنن ابی داؤد کے حاشیہ پر اس حدیث کو ضعیف لکھا ہے۔ جناب ملا علی قاری حنفی نے بھی اس حدیث کو باطل محض لکھا ہے ۔ عبارت یہ ہے:
" ومن ذالك حديث الناس يوم القيامة يدعون بامهتهم لابائهم هو باطل"(فتح الباری، ص:464، ج10)
’’ منجملہ موضوع احادیث میں سے یہ حدیث بھی موضوع ہے کہ قیامت کے روز لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام پر آواز دی جائے گی ۔ یہ حدیث باطل ہے۔‘‘
جواب نمبر2:.............. یہ ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جو ابھی آگے بیان ہوں گی۔
جواب نمبر3:.............. اس حدیث میں ’’امہاتہم‘‘ کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔ محمد بن کعب نے ’’ بامہاتہم‘‘ کی جگہ ’’ بامامہم‘‘ نقل کیا ہے۔ بہرحال یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام پر لایا جائے گا۔
دلیل نمبر2........... حضرت عیسیٰ چونکہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے ، لہذا قیامت کے روز ان کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر کسی کو ماں کے نام پرآواز دی جائے گی۔
اس دلیل کا جواب گزشتہ اشاعت میں دیا جاچکا ہے۔
دلیل نمبر3........... امام بغوی نے اس سلسلہ میں تیسری دلیل یہ لکھی ہے : ’’لشرف الحسن والحسین‘‘
کہ حضرت حسن اور حسین کی شرافت نسبی کےلحاظ کو مدنظر رکھ کر ہر آدمی کو قیامت کےدن اس کی ماں کے نام پر بلایا جائے گا۔ کیونکہ حضرت حسین کی شرافت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓ کی مرہون منت ہے۔
جواب نمبر1...... یہ بات بالکل من گھڑت ہے کہ حضرت حسین کی شرافت محض فاطمہ ؓ کی مرہون منت ہے ۔ حسین کی منقبت و عظمت میں جہاں حضرت فاطمہ ؓ کا حصہ ہے وہاں حضرت علی کی پدرانہ نسبت برابر کی شریکہ ہے ۔ علاوہ ازیں خود ان کے تقویٰ و طہارت کو نظر انداز کرنا بھی کچھ درست نہیں۔
جواب نمبر2.............. امام بغوی کی یہ دلیل خود ان کی اپنی تجویز کردہ ہے جو سراسر عقیدت کی آئینہ دار ہے او رکسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
جواب نمبر3......... مزید برآں یہ بات صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث کے خلاف ہے جو آگے آرہی ہے۔
دلیل نمبر4........... اس مؤقف کی تائید میں آخری بات یہ کہی جاتی ہے کہ والدہ کے نام پر لوگوں کو اس لیے آواز دی جائے گی تاکہ حرامی بچے ذلت و رسوائی سے محفوظ رہ سکیں۔ (معالم التنزیل)
جواب........ زناسے پیدا ہونے والے بچوں کی فضیحت اور روائی مطلوب نہیں بلکہ ان لوگوں کی تعریف اور امتیاز مطلوب ہے اور ظاہر بات ہے کہ آدمی کی جتنی پہچان اس کے والد کے نام سے ہوتی ہے ، اتنی ماں کے نام کے ذریعہ ہر گز نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں باپوں کے نام پر بلانے پر اگر فضیحت اور ذلت ہوگی تو زانی اور مزنیہ کی ہوگی۔ جنہوں نے یہ نابکاری کی ہوگی۔ اس نابکاری کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں مورد فضیحت والزام گردانا جائے؟ اور پھر یہ بات ’’ الولد للفراش وللعاهر الحجر‘‘
کہ بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے فراش پر پیدا ہو، اور زانی کے لیے پتھرہے۔‘‘ کے بھی خلاف ہے۔
جواب نمبر2.......... یہ بات بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صریح حدیث کے خلاف ہے کہ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے باپ کے نام پر پکارا جائے گا۔ اوراپنے اندر اتنا دم خم بھی نہیں رکھتی کہ اسے متنازعہ مسئلہ میں دلیل ٹھہرایا جاسکے۔
ازروئے صحیح احادیث صحیح یہ ہے کہ ہر بچے کو اس کے باپ کے نام پر بلایا جائے گا، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ(صحیح البخاری:ص912، ج2)
’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا:بدعہد اور بے وفا آدمی کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری اور بدعہدی ہے۔‘‘ کہ ’’ اس کے لیے جھنڈا کھڑا کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ ہر آدمی کو اس کے باپ کے نام پر پکارا جائے گا کہ دنیا میں وہ جس طرف منسوب تھا کیونکہ اس حدیث میں’’ فلاں بن فلاں‘‘ ہے ، ’’فلاں بن فلانۃ ‘‘ نہیں۔ اور ’’ فلاں‘‘ مذکور ہے ا ور اس کی مؤنث ’’فلانۃ‘‘ ہوتی ہے۔
چنانچہ محدث ابن بطال فرماتے ہیں:
" في هذا الحديث رد القول من زعم انهم لا يدعون الا بامهتهم سترا على آبائهم.(فتح البارى، ص:464،ج:10)
’’اس حدیث میں ان لوگوں کی تردید ہے جو یہ کہتے ہیں کہ باپوں کی ستر پوشی کے مد نظر لوگوں کو قیامت کے روز ان کی ماؤں کے نام پر آواز دی جائے گی۔‘‘
اور باپ کے نام پر بہ نسبت ماں کے نام پر بلانے کی زیادہ تمیز او رپہچان ہوتی ہے۔ چنانچہ محدث ابن بطال لکھتے ہیں:
" والدعاء بالآباء اشد فى التعريف، وابلغ فى التميز وفى الحديث جواز الحكم بظهر الامور". (فتح البارى، ص:464، ج :10)
’’ کیونکہ ندا سے مراد تعریف اور تمیز مراد ہے اور بہ نسبت ماؤں کے ، باپوں کے نام پر بلایا جانا پہچان اور تمیز کے لیے زیادہ موزوں ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت میں باطن پر نہیں، بلکہ کسی کی ظاہری حالت میں حکم لگانا جائز ہے۔
أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ قَالَ أَبُو دَاوُد ابْنُ أَبِى زَكَرِيَّا لَمْ يُدْرِكْ أَبَا الدَّرْدَاءِ(عون المعبود شرح ابی داؤد، ص:442، ج:4، فتح الباری، ص:476، ج:10)
’’حضرت ابوالدرداء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز تم سب کو تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام پر پکارا جائے گا، اس لیے اپنے اچھے اچھے نام رکھا کرو۔‘‘
امام ابوداؤد اور حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو منقطع قراردیا ہے ۔ تاہم حافظ ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری ص:476، ج:10۔ اخرجہ ابوداؤد وصححہ ابن حبان۔ کہ’’ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔‘‘
بہر حال ان احادیث صحیحہ کے پیش نظر صحیح یہ ہے کہ ہر کسی کو قیامت کے دن اس کے باپ کے نام پر آواز دی جائے گی اور ماں کے نام پر بلائے جانے والی حدیث منکر، ضعیف بلکہ بقول ملا علی قاری حنفی موضوع ہے۔ علامہ علقمی وغیرہ نے ان حدیثوں میں تطبیق دینے کی کوشش بھی کی یہ کہ بعض کو ماں کے نام پر اور بعض کو ان کے باپوں کے نام پر آواز دی جائے گی۔ بہر حال حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی مذکورہ صحیح حدیث اور حافظ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق ہمارے نزدیک یہی صحیح ہے کہ سوائے حضرت عیسیٰ کے باقی سب کو ان کے باپوں کے نام پربلایا جا ئے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب