السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ پروفیسر مسٹر محمد رفیق و مسز ثریا گورنمنٹ کالج لاہور نے طلباء کیلیے ایک کتاب نصابی طور ہر لکھی ہے جس میں درج ذیل مسائل پر قرآن و حدیث کی صریحاً مخالفت کی ہے۔
(1)نمازوں میں اب بھی کمی ہو سکتی ہو-
(2) رسول اللہ ﷺ کا نظام اب فرسودہ ہو چکا ہے نئے حیات کو اپنانا ہو گا۔
(3) نبی کریم ﷺ کو موسیقی وغیرہ پسند تھی۔
(4) قرآنی تعلیمات اصلی نہیں ہیں۔
(5) احادیث نبویہﷺ کو عمومی حیثیت دینا غلط ہے۔
(6) روزہ آج کے دور میں ضروری نھیں ہے۔
(7) من مرضی کے اجتہاد کی اجازت ہے۔
(8) دنیا آزمائش گاہ نہیں ہے۔
(9) سور اتنے پلید نہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں۔ ہم کس کو خنزیر کہتے ہیں تو لوگ اچھے معنی نہیں لیتے۔ سور کا گوشت عمدہ ترین غذا اور کئی بیماریوں کا علاج ہے۔
(10) سوروں کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ عام جانوروں سے چالاک ، پھرتیلے اور بہادر ہوتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر اگر کسی آدمی کی تعریف کرنا مقصود ہو تو اس کو سور کہنا ٹھیک ہے۔
(11) لوگوں کو شادی کیلیے تین سال کا معاہدہ کرنا چاہیے۔ لڑکیوں اور لڑکوں کا اختلاط کسی خطرے کا موجب نیہں بلکہ قابل استحسان بات ہے۔ کیا ایسے نظریات کا حامل انسان مسلمان ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شریعت میں ایسے انسان کا کیا حکم ہے کہ مرتد ہے واجب القتل ہے اور اگر اپنےعقائد باطلہ سے رجوع کر لے تو کیا ان کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں۔ شرعی فتویٰ صادر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحیت سوال ایسا عقیدہ رکھنے والا بلاشبہ بوجہ دائرہ اسلام سے خارج اور ان کا یہ الحاد بکنار کتاب جلادینے چاہیے۔
(الف)اس لیے کہ پانچ نمازیںاللہ عزہوجل کی مقرر کردہ فرض ہیں جیسا کہ صحیح البخاری باب کیف فرجت الصلوٰۃ فی الاسراء
(1)میں حضرت یونس کی مشہور حدیث میں ہے۔
فقال هى خمس وهى خمسون لايبدل القول لدى. (ج1ص 51)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پڑھنے میں تو یہ پانچ ہیں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا اور میرا فیصلہ کسی تغیر و تبدل کو قبول نہیں کرتا ۔‘‘
(2)حضرت انس کی دوسری حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
فقال أنشدك بالله امرك ان تصلى الصلوت الخمس فى اليوم والليلة قال اللهم نعم . (صحيح البخارى ج1ص 15)
کہ حضرت ضمام بن ثعلہ نے سوالات کا سلسلہ شروع رکھتے ہوئے کہا میں آپ کو اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ھے؟ تو آپ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " ہاں واقعی حکم دیا ہے۔‘‘
اس مضمون کی اور بھی متعدد احدیث اہل السنس نے روایت فرمائی ہیں۔ ان احدیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ متصلہ غیر محللہ ولا شاذ سے کنیمروز ثابت ہوا کہ پانچ نمازیں خود اللہ عزوجل کی فرض اور مقرر کردہ ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں یہ کہنا کہ ان میں اب بھی کمی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قطعی فیصلہ کا انکار کربنا ہے اور انکار بلاشبہ کفر ہے۔ فافهم ولاتكن من القاصرين الجاحدين.
ثانی: اس لیے ان کا یہ کہناکہ رسول اللہ ﷺ کا نظام اب فرسودہ ہو چکا ہے نئے نظام حیات کو اپنانا ہو گا۔ محض غلط و ناطل ہے اور سراسر کفر و الحاد اور زندقہ ہے۔ کیونکہ اسلام کا نظام حیات وہ ابدی نظام حیات ھے جو کبی فرسودہ نہیں ھو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـمُ وَمَا اختَلَفَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـبَ إِلّا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ العِلمُ بَغيًا بَينَهُم وَمَن يَكفُر بِـٔايـتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَريعُ الحِسابِ ﴿١٩﴾... سورة آل عمران
بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والاہے ۔
﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـسِرينَ ﴿٨٥﴾... سورة آل عمران
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا-
﴿أَفَغَيرَ دينِ اللَّهِ يَبغونَ وَلَهُ أَسلَمَ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ طَوعًا وَكَرهًا وَإِلَيهِ يُرجَعونَ ﴿٨٣﴾... سورة آل عمران
کیا وه اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ تمام آسمانوں والے اور سب زمین والے اللہ تعالیٰ ہی کے فرمانبردار ہیں خوشی سے ہوں یا ناخوشی سے، سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔
﴿يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّـغوتِ وَقَد أُمِروا أَن يَكفُروا بِهِ ...﴿٦٠﴾... سورة النساء
لیکن وه اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حاﻻنکہ انہین حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں۔
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الكـفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورة المائدة
جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورة المائدة
اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں۔
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الفـسِقونَ ﴿٤٧﴾... سورة المائدة
اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کرده سے ہی حکم نہ کریں وه (بدکار) فاسق ہیں۔
پہلی تین آیات سے جہاں یہ حقیقت واضح ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام حیات اللہ تعالیٰ کو قبول نہیں وہاں چوتھی آیت میں طاغوت یعنی غیر اسلامی نظام حیات کیساتھ کفر کرنے اور اس کو مسترد کر دینے کو ضروری اور لازمی قرار دیا گیا ہے اور پھر آیت نمبر5،6،7 میں ایسے لوگوں کو جو اسلام کے نظام حیات کو فرسودہ قرار دے کر غیر اسلامی نظام زندگی اختیار کرنے والوں کو دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں پکے کافر ، ظالم ، بدکار اور فاسق کہا گیا ہے۔
ثالث : اس لیے کہ یہ کہنا کہ نبی کریمﷺ کو موسیقی پسند تھی۔ یہ نبیﷺ پر بہتان اور افتر ہے کیونکہ آپ ﷺ مبعوث ہی اسی لیے ہوئے تھے کہ آلات موسیقی گانا بجانا اور لھوالحدیث کی تمام متعلقات کو مٹایا جائے جیساکہ سنن ابی دائود اور جامع ترمذی میں ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
يعثت لمحق المزامير والمعازف . ( مشكوة )
میں باجا گاجا اور کھیل کود مٹانے کیلیے مبعوث ہوا ہوں۔
اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾ ... سورة لقمان
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بےعلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راه سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔
حضرت حسن لہو الحدیث کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
كل ما شغلك عن عبادة الله وذكره من السمر والاضاحيك والخرافات والغنا و نحوها . ( روح المعانى)
یعنی لھو الحدیث ہر وہ چیز ہے جو اللہ عزوجل کی عبادت سے اور اسکی یاد سے ہٹانے والی ہو جیسا کہ فضول قصہ گوئی ہنسی ٹھٹھول کی باتیں واہیات مشغلے اور گانا بجانا وغیرہ۔
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں:
لما ذكر تعالى حال السعداء, وهم الذين يهتدون بكتاب الله وينتفعون بسماعه, كما قال تعالى: {الله نزل أحسن الحديث كتاباً متشابهاً مثاني تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم وقلوبهم إلى ذكر الله} الاَية, عطف بذكر حال الأشقياء الذين أعرضوا عن الانتفاع بسماع كلام الله وأقبلوا على استماع المزامير والغناء بالألحان وآلات الطرب, كما قال ابن مسعود في قوله تعالى: {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} قال: هو والله الغناء.(تفسير ابن كثيرج3ص 457)
یعنی سعدآء اور مفلحین کے مقابلہ میں ان اشقیاء کا حال بیان کیا گیا ہے جو اپنی جہالت اسالم دشمنی اور ناعاقبت اندیشی سےقرآن مجید چھوڑ کر ناچ رنگ کھیل تماشےیا دوسری واہیات و خرافات میں مستغرق ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوںکو بھی ان غیر شرعی مشاغل اور تفریحات میں لگا کر اللہ کے دین سے اور اس کے ذکر سے برگشتہ کر دیں اور دین کی باتوں کا خوب مذاق اڑائیں جیسے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ لھو الحدیث سے مراد موسیقی اور آلات طرب اور گانا بجانا مراد ہے اور حجرت عبداللہ بن عباس، جابر ، عکرمہ، سعید بن جبیر،مجاہد مکول عمرو بن شعیب علی بن بذیمہ حسن بصعی جیسے اساطین علم و فضل کا بھی یہی قول ہے
اس میں قصے کہانیاں افسانے ڈرامے ،ناول ،جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بےحیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آ جاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، وڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی رنڈیاں بھی اس مقصد کیلیے خریدی تھیں تاکہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے دور رہیں اس اعتبار سے اس میں گلوکارائیں بھی آ جاتی ہیں جو آجکال فنکار ، فلمی ستارے اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب، خوشنما اور دلفریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں ان کی سرپرستی اور حصلہ افزائی کرنے والے ارباب اختیار ، ادارے اخبارات کے مالکان اہل قلم اور فیچر نگار بھی اسی عذاب مبین کے مستحق ہوں گے۔(احسن البيان ص538و 539)
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو موسیقی ہرگز پسند نہہیں تھی۔لہٰذا ان نالائق مصنفین کا یہ لکھنا کہ رسول اللہ ﷺ کو موسیقی پسند تھی یہ آپ کی ذات اقدس پر نرا بہتان اور سراسر افتراء ہےاور رسول اللہ ﷺ پر بہتان اور افتراء کرنے والا کافر اور جہنمی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے بدبختوں کا انجام بد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
(1):۔ حضرت علی کہتے ہیں :
قال النبى ﷺ لا تكذبوا على فانه من كذب على فليلج النار . (صحيح البخارىج1ص 21)
(2):۔حضرت زبیر بن عوام سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا:
من كذب على فليتبوا مقعده من النار . (حواله ايضاً )
(3):۔ حضرت انس فرماتے ہیں:
ان البنى ﷺ قال من تعمد على كذبا فليتبوا مقعده من النار . (حواله ايضاً)
ان تینوں احادیث صحیحہ کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنا لیا۔
(4):عن سلمة بن الاكوع قال سمعت النبى ﷺ يقول من يقل على مالم اقل فليتبوا مقعده من النار . ( حواله مذكوره)
حضرت سلمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ھوئے سنا ہے جو شخص مجھ پر ایسی بات کہے جو میں نے نھیں کہی تو اس نے اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لیا۔
یہ حدیث لفظاً و معناً متواتر ہے صحیح و حسن اسناد کے ساتھ 30 صحابہ کرام سے مروی ہے شیخ ابو محمد جوینی اور شیخ ابن منیر نے رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والے کو کافر کہا ہے اور واقعی ایسا بدبخت کافر ہے۔
رابع:۔ اس لیے کہ قرآن کی تعلیمات کو اصلی تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بھی انسان کافر ہو جاتا ھے۔ کیونکہ ان نالائق لوگوں نے نہ صرف رسول اللہﷺ کی تکذیب کی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی جھوٹا قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:۔
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوى ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحى ﴿٤﴾... سورة النجم
’’ اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں،وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ۔‘‘
(2):۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذا قَرَأنـهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ﴿١٩﴾... سورةالقيامة
’’اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے،ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں،پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : یعنی اس مشکل مقامات کی تشریح اور حلال و حرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے قرآن کے مجملات کی جو تفصیل ، مبہات کی توضیح اور اس کے عمومات کی جو تخصیص بیان فرمائی ہےجسے حدیث کہا جاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سوجھائی ہوئی باتیں ہیں ۔ اس لیے ان کو بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔(احسن البیان)
یعنی اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو یہ یقین دہانی کررا رہا ہے کہ اس قرآن کا آپ کو یاد کرانا اور اس کے علوم و معارف آپ پر کھولنا اور آپ کی زبان سے دوسروں تک پہنچانا ان سب باتوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـفِظونَ ﴿٩﴾... سورة الحجر
’’ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شریر اور احمق لوگوں کو للکار رہا ہے جو قرآن اور اس کی تعلیمات کو غیر اصلی کہتے ہیں اور اس کا مذاق اڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ اس قرآن کو اتارنے والے ہم ہی ہیں اور ہم ہی نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ھے۔ اور قیامت تک اس کو ہر طرح کی تحریف لفظی اور معنوی سے محفوظ و مامون رکھنے کا ہم نے فیصلہ کر رکھا ہے۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر اس کے اصول و احکام کبی تبدیل نہیں نوں گے۔ حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیمالشان وعدہ الٰہی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا کہ جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب، مغرور مسلم اہل قلم سکالروں کے سر نیچے ہو گئے۔ قرآن کی تعلیمات کو غیر اصلی کہنے والوں پعر تمام حجت کیلیے غیر سکالروں کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:
(1):۔ لارڈ میور جیسا متعصب انگریز کہتا ہے: جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کیطرح بارہ(اب چودہ) صدیوں تک ہر قسم کی تحریف (لفظی اور معنوی) سے پاک رہی ہو۔
(2): ڈاکٹر گبن: اپنی تاریخ میں لکھتا ہے: قرآن کی نسبت بحر اطلانتک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ وہ شریعت ہے۔ اور ایسے دانش مندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
(3):۔ مسٹر مارما ڈیوک پکھتال نے اسلام اور ماڈرن ازم پر لندن میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا ہے :
وہ قوانین جو قرآن میں درج ہیں اور پیغمبر اسلام (ﷺ) نے سکھلائے وہی اخلاقی قوانین کا کام دے سکتے ہیں۔ اس کتاب کی سی کوئی اور کتاب صفحہ عالم پر موجود نہیں ۔ گذشتہ چند سالوں میں مسلمانوں نے کسی شیخ الاسلام یا مجتہد کے فتوے کی اندھی تقلید میں قرآن کے اصلی مدعا کو خبت کر دیا ہے حالانکہ اس قسم کے تمامی امور کو قرآن نے بہت مذموم قرار دیا ہے۔
نوٹ۔......قرآن کی تعلیمات کو غیر اصلی کہنے والے اور مقلد ین حضرات غور فرمائیں۔ دیکھیں کہ کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا؟
(4):۔موسیو سید لو فرانسیسی خلاصہ تاریخ عرب میں لکھتے ہیں کہ: اسلام بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہے اسلام کو جو وحشیانہ مذہب کہتے ہیں ان کو تاریک ضمیر بتلاتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ہم بزور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں تمام آداب واصولحکمت و فلسفہ موجود ہیں (فتاویٰ ثنائیہ ج ا)صدق الله تعالىٰ انزله بالحق ونزل.
یا للعجب: یہ بات کتنی حیرت انگیذ اور تعجب خیز ہے کہ مسٹر میور جیسے متعصب مستشرقین اور اسلام کے ازلی مخالفین تو اسلام کے پیش کردہ اخلاقی، تمدنی ، عدالتی، اور سیاسی نظام کو سراہتے اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تھکتے نہیں ۔ قرآن کو ہر قسم کی تحریف لفظی اور معنوی سے پاک قرار دیتے ہیں اور شریعت اسلامی کو دانشمندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارے نام نہاد مسلم دانشور اور مغرب گزیدہ مصنفین اسلامی نظام کو فرسودہ اور قرآنی تعلیمات کو غیر اصلی کہتے ہوئے شرم نہيں کرتے۔یاللعجب ،یاللعقول الطائشه
انتباہ: یہ بھی یاد رہے کہ توحید رسالت نماز اور روزہ کا تارک نہ صرف کافر اور مرتد ہے بلکہ مباح الدم بھی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
عن ابن عباس قال حماد بن زيد ولا اعلمه الا قد رفعه الى النبي صلى الله عليه وسلم قال: عرى الاسلام وقواعد الدين ثلاثة عليهن أسس الاسلام من ترك واحدة منهن فهو بها كافر حلال الدم شهادة ان لا اله الا الله والصلاة المكتوبة وصوم رمضان. (رواه ابويعلى باسنادحسن الترغيب والترهيب ج2ص 110)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی مرکزی جڑ اور دین کی بنیادیں تین چیزیں ہیں جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو چھوڑنے والا حلال الدم کافر ہو گیا۔ ایک اللہ کی واحدانیت اور رسول اللہﷺ کی رسالت کی شہادت دوسری فرض نماز اور تیسرے رمضان کے روزے۔
لہٰذا مذکورہ عقائد کا حامل نہ صرف کافر و مرتد ہی بلکہ توبہ نہ کرنے کیوجہ سے مباح الدم بھی ہے، مگر یہ کام حکومت کی صوابدید پر موقوف ہے یعنی سزا کی زمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے وہ جانے اور اس کا کام ۔
مگر
سابع: اسی طرح دنیا کو آزمائش گاہ تسلیم کرنا بھی کفر کو مستلزم ہے۔ کیونکہ قرآن میں دنیا کو آزمائش گاہ کہا گیا ہے اور قرآن کا انکار کفر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَنَبلُوَنَّكُم بِشَىءٍ مِنَ الخَوفِ وَالجوعِ وَنَقصٍ مِنَ الأَمولِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرتِ وَبَشِّرِ الصّـبِرينَ ﴿١٥٥﴾... سورة البقرة
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیئے ۔
﴿وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ وَالخَيرِ فِتنَةً...﴿٣٥﴾... سورة الأنبياء
ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں۔
﴿ الَّذى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيوةَ لِيَبلُوَكُم أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا وَهُوَ العَزيزُ الغَفورُ ﴿٢﴾... سورة الملك
جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے والا ہے ۔
﴿فَأَمَّا الإِنسـنُ إِذا مَا ابتَلىهُ رَبُّهُ فَأَكرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقولُ رَبّى أَكرَمَنِ ﴿١٥﴾ وَأَمّا إِذا مَا ابتَلىهُ فَقَدَرَ عَلَيهِ رِزقَهُ فَيَقولُ رَبّى أَهـنَنِ ﴿١٦﴾... سورة الفجر
انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت ونعمت دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا،اور جب وه اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا) ۔
ان چاروں آیات میں دنیا کی آزمائش گاہ ہونے کا ایسا کھلا ثبوت ہے کہ عیاں راچہ بیاں کا مصداق ہے۔ لہٰذا اس کا انکار کفر ہے۔
ثامن:۔ ایسے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی آٹھویں وگہ خنزیر کے گوشت کی تعریف کرنا اور اس کو عمدہ ترین کہنا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو نجس اور خاص کر اس کے گوشت کو قرآن میں چار مقامات پر بڑے کھلے اور دو توک الفاظ میں حرام کہا:
(1)..... ﴿إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ اللَّهِ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٧٣﴾... سورة البقرة
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے ۔
(2).....﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ...﴿٣﴾... سورةالمائدة
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔
(3)..........﴿قُل لا أَجِدُ فى ما أوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلى طاعِمٍ يَطعَمُهُ إِلّا أَن يَكونَ مَيتَةً أَو دَمًا مَسفوحًا أَو لَحمَ خِنزيرٍ فَإِنَّهُ رِجسٌ أَو فِسقًا أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٤٥﴾... سورة الأنعام
آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے ۔
﴿ إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١١٥﴾... سورة النحل
تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں، پھر اگر کوئی شخص بے بس کر دیا جائے نہ وه خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزرنے واﻻ ہو تو یقیناً اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے والا ہے ۔
ان چاروں نصوص صریحہ میں خنزیر کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہےاور بالخصوص آیت نمبر 3 میں نہ صرف اس گوشت کو حرام قرار دیا ہے بلکہ اس کو پرلے درجہ پلید اور گندہ جانور بھی کہا گیا ہے۔ لہٰذا ایسے گندے اور حرام جانور کے گوشت کی تعریف و تحسین بلاشبہ کفر بواح ہے۔
انتباہ:۔ خنزیر کو صرف قرآن کریم ہی نے حرام قرار نہیں دیا بائبل اور ہندوں کی مشہور کتاب منو سمرتی میں بھی اس کی حرمت بیان ہو چکی ہے۔
شیخ الاسلام ثنا اللہ امر تسری ایک سوال کے جواب میں لحم خنزیر کی حرمت کی وجہ بیان کرتے ہوئے تصریحاً فرماتے ہیں :
خنزیر کا گوشت اخلاق میں مضمر ہے اس کی صراحت بائبل اور منو سمرتی میں بھی ہے
علامہ یوسف قرضاوی، قطر ، عرب کے ممتاز مصنف اور محقق اور عالم اسلام کی مشہور شخصیت ہیں۔ سور کے گوشت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:
تیسری (حرام) چیز سور کا گوشت ہے جو طبع سلیم کے نزدیک نجس ہے اور اس سے اسے نفرت ہے کیونکہ سور کی مرغوب غذا نجاست اور کوڑا کرکٹ ہے۔ طب جدید کی رو سے اس کا کھانا ہر خطہ میں اور خاص کر گرم ممالک میں سخت مضر ہے اور سائنسی تجربات نے ثابت کیاکہ سور کا گوشت کھانے سے خاص قسم کے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جو بڑے مہلک ہوتے ہیں اور معلوم نہیں مزید کیا کیا اسرار منکشف ہوں گے۔ محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ سور کا گوشت ہمیشہ کھاتے رہنے سے غیرت کم ہو جاتی ہے۔(الحلال و الحرام فی الاسلام ص60)
اس سلسلہ میں اور بھی حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں غیر مسلم اور مخالفین اسلام نے قرآن کی تعلیمات کی توہین کا ارتکاب کیا ہے اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا انکار سراسر کفر بواح ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں بیسوں مقامات پر قرآن اور اس کی تعلیمات کو غیر اصلی کہنے والوں کو کافر قرار دیا ہے۔
ایک مقام پر فرمایا:
﴿وَمَن يَكفُر بِاللَّهِ وَمَلـئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَاليَومِ الءاخِرِ فَقَد ضَلَّ ضَلـلًا بَعيدًا ﴿١٣٦﴾... سورة النساء
جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وه تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا-
﴿وَقالَ الَّذينَ كَفَروا إِن هـذا إِلّا إِفكٌ افتَرىهُ وَأَعانَهُ عَلَيهِ قَومٌ ءاخَرونَ فَقَد جاءو ظُلمًا وَزورًا ﴿٤﴾ ... سورة الفرقان
اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں -
﴿ وَإِذا تُتلى عَلَيهِم ءايـتُنا بَيِّنـتٍ تَعرِفُ فى وُجوهِ الَّذينَ كَفَرُوا المُنكَرَ...﴿٧٢﴾... سورة الحج
ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہوا کہ قرآن کی تعلیمات کو غیر اصلی کہنے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور یہ مسئلہ اتفاقی اور اجتماعی ہے۔
شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری ایک سوال کے جواب میں یہ تصریح فرماتے ہیں : قرآن کا منکر دو طرح سے ہوتا ہے ایک اس کو منزل من اللہ نہ جاننے والا اور دوسرا اپنے حق میں واجب العمل نہ جاننے والا یہ دونوں کافر ہیں۔(فتاوى ثنائيه ج1ص160)
خامس : اس وجہ سے بھی ایسا آدمی خارج از اسلام ہے کہ اس نے احادیث نبویہ ﷺ کی عمومی حثیت کا انکار کر کے دراصل حجیت حدیث کا انکار کیا ہے جبکہ حدیث کا حجت شرعی ہونا متعدد آیات بینات سے ثابت ہوا ہے۔ چند ایک آیات اتمام حجت کے طور پر پیش خدمت ہیں
﴿إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـبَ بِالحَقِّ لِتَحكُمَ بَينَ النّاسِ بِما أَرىكَ اللَّهُ وَلا تَكُن لِلخائِنينَ خَصيمًا ﴿١٠٥﴾... سورة النساء
یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو -
﴿بِالبَيِّنـتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالنحل
دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں -
﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوى ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحى ﴿٤﴾... سورة النجم
اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ،وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے -
ان تینوں آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات و ارشادات( احادیث نبویہﷺ) بھی وحی الہٰی پر مبنی ہیں اور قرآن کی تفسیر و توضیح ہیں۔ لہٰذا حجیت حدیث کا انکار دراصل وحی الہٰی کا انکار ہے اور وحی الہٰی کا انکار کفر و الحاد اور زندقہ ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ احادیث رسولﷺ کی عمومی حیثیت سے انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
سادس: ان نالائق اور بدقسمت لوگوں کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی وجہ روزہ کی فرضیت کا بھی انکار ہے جو کہ دراصل قرآن کا انکار ہے کیونکہ روزہ بنص قرآن فرض ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿ يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة
اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو -
اور یہ طے شدہ بات ہے جس میں کسی بھی مسلمان کو شک ہے اور نہ اختلاف کہ جس طرح پورے قرآن کا انکار کفر ہے اسی طرح اس کیایک آیت بلکہ ایک جملہ اور ایک حرف اور اور کسی ایک حکم کا انکار بھی کفر ہے۔
تاسع:۔ ان لوگوں کے کفر کی نویں وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے بنائے ہوئے ازدواجی قوانین کے خلاف نکاح کیلیے تین سال کے معاہدہ کی بات کر رہے ہیں جو کہ الہہ کے بنائے ہوئے قانون میں مداخلت بے جا ہے:
﴿أَم لَهُم شُرَكـؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم وَإِنَّ الظّـلِمينَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٢١﴾... سورة الشورى
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر فیصلے کے دن کا وعده نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ یقیناً (ان) ظالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے -
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ تحلیل و تحریم کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور کسی کو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین میں مداخلت کا کوئی حق نہیں اور اللہ کے احکام کے خلاف فیصلہ دینا کفر ہے جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر یہ نالائق مصنف دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ ہاں توبہ خالص کے ذریعہ دوبارہ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں ورنہ مرتد ہی رہیں گے۔ توفیق دینے والا اللہ عزوجل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب