السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اصغر مسیح بن باغ مسیحی کےساتھ اسلام کی حقانیت کےحوالہ سے بات کی اور اس کو قبول اسلام کی دعوت دی ، اس نے مجھے کہا : ختم نبوت کو تسلیم کرنے کی دعوت دے رہے ہو وہ بھی کوئی نبی ہے ؟ جس کی لاش بغیر جنازہ تین دن پڑی رہی ، اس کے بعد اس کو بانسوں دھکیل کر گڑھے کے اندر دبا دیا گیا ۔ (نعوذ باللہ من ذلک) مذکورہ شخص کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ، اب عیسائی پادریوں کے وفود اس شرط پر اس کی معافی کےلیے آرہے ہیں کہ وہ یہ گاؤں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گا۔ کیا ہم قرآن وسنت کی روشنی میں مذکورہ شرط پر اصغر مسیحی کو معافی دے سکتے ہیں یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ جوشخص چاہے وہ مسلمان ہو یاکافر ،حربی ہو یا ذمی، رسول اللہ ﷺ کو گالی دیتا ہے یا آپ کی تنقیص کرتا ہے آپ کی جلالت قدر کی تحقیر کرتا ہے ، آپ کی شان کامذاق اڑاتا ہے ، آپ کی شان ذی شان کی گستاخ کرتا ہے یا آپ کی سیرت طیبہ کے کسی گوشے کو ہدف تنقید ٹھہراتا ہے ،غرضیکہ آپ کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے اور ہر زہ سرائی کا مرتکب ہوتا تو ایسا بدبخت انسان ننگا چٹا کافر ، مرتد اور زندیق او ر توبہ کی مہلت دئیے بغیر وادجب القتل ہے اور اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے کہ فی الفور اس کا سرقلم کر دے ، جمہور علماء امت اور ماہرین شریعت کا اس پر اجماع ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ تصریح فرماتے ہیں :
أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم من مسلم أو كافر فإنه يجب قتله.
هذا مذهب عليه عامة أهل العلم قال ابن المنذر: "أجمع عوام أهل العلم على أن حد من سب النبي صلى الله عليه وسلم القتل" وممن قاله مالك والليث وأحمد وإسحاق وهو مذهب الشافعي قال: "وحكي عن النعمان لا يقتل" يعني الذي هم عليه من الشرك أعظم وقد حكى أبو بكر الفارسي من أصحاب الشافعي إجماع المسلمين على أن حد من يسب النبي صلى الله عليه وسلم القتلوقال محمد بن سحنون اجمع العلماء على ان شاتم النبي المتنقص له كافر والوعيد جار عليه بعذاب الله له وحكمه عند الامة القتل ومن شك في كفره وعذابه كفر.(الصارم المسلول ص4)
تما م اہل علم کا مذہب اور فتوی ہے کہ جوشخص خواہ وہ مسلمان ہو یاذمی (جیسے عیسائی ، یہودی اور مجوسی وغیرہ ) ہو رسول اللہﷺ کو گالی بکتا ہے اس کو ( توبہ کی مہلت دیئے بغیر ) قتل کر دینا شرعاً واجب ہے ۔ امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم کااس پر اجماع ہے کہ جوشخص رسول اللہﷺ کوسب وشتم کرتا ہے اس کی حد قتل کرنا ہی ہے امام مالک ، امام لیث ، امام احمد اور امام اسحق رحمہم اللہ نے بھی اسی بات کو اختیار کیا ہے اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے ۔
ابوبکر فاسی (جن کا شمارائمہ شوافع میں ہے ) نے اپنی کتاب ’’ الاجماع ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ شاتم رسول اللہﷺ کی حد بیان کرتے ہوئے الشیخ محمدبن سحنون مصری نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ رسول اللہﷺ کوگالی دینے والے کےلیے شریعت میں سخت ترین سزا کی وعید وارد ہے ، امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ہی قتل ہی ہے جو آدمی ایسے بدنصیب کے کفر اور اس کے لیے عذاب میں شک وشبہ کا اظہار کر ے وہ بھی کافر ہے ۔
امام احمد بن حنبل توضیح فرماتے ہیں :
كل من شتم النبى ﷺ او تنقصه مسلما كان او كافرا فعليه القتل وارى ان يقتل ولا يستاب . (الصارم المسلول ص5)
کہ جو آدمی چاہے وہ مسلمان ہویا کافر ، اگر وہ نبی ﷺ کو گالی دیتا ہے یا ان کی تنقیص کرتا ہے ، اس کا سرقلم کر دینا واجب ہے اور میری (احمدکی ) رائے تویہ ہے کہ اس کوتوبہ کا موقع نہ دیا جائے بلکہ فی الفور اس کی گردان اڑا دی جائے ۔
علامہ شامی حنفی رقم طراز ہیں :
وكل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلاجماعة من تكررت ردته على ما مر و الكافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حداولا تقبل توبته مطلقا. (ردالمحتار ج4ص221)
ہروہ مسلمان جومر تد ہو جاتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے مگر وہ ٹولہ جن کا ارتدار مکرر (بار بار) ہو ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی ایک نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہو جائے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا اور کسی حالت میں بھی اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ،احمدبن حنبل ، ابن نجیم مصری اور علامہ شامی حنفی جیسے فقہائے اسلام کی ان تصریحات سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ رسول اللہﷺ کو گالی دینا اور آپ ﷺ کی توہین و تنقیص کرنا اور آپ کا مذاق اڑانا اور آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے کسی گوشہ کوہدف تنقید بنانا وغیرہ اور آپ کی نعش مبارک کو متعلق گستاخی آمیز جملے بکنا وغیرہ اتنا سنگین جرم ہے اگر بالغرض کوئی نشی ء شخص بھی رسول اللہﷺ کو گالی دے گا یا آپﷺ کی توہین یا آپ کو حقیر سمجھے گا تو اس کا بھی سر قلم کر دیا جائے گا جیسا کہ فقیہ شامی لکھتے یہں :وفى الاشباه والنظائر لاتصح ردة السكران الاالردة لسب النبى ﷺ فانه نقتل و لايعفى عنه . (رد المختاار ح4ص224)
اشباه میں ہے کہ نشہ میں دھت آدمی کے اتداد کا اعتبار نہیں تاہم اگر کوئی شخص رسول اللہﷺ کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہو جاتا ہے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا اور اس کے جرم کے معاف نہیں کیا جائے گا ۔
ينقض عهدالذمة بالامتناع عن الجزية....... او ذكر الله او رسوله او كتابه او دينه بسوء فان هذا ضرر يعم المسلمين فى انفسهم اعراضهم واموالهم واخلاقهم و دينهم . (فقه السنة ج3ص 73)
ذمی آدمی (جیسے یہ مسیحی) جزیہ دے دینے سے رک جائے یا قاضی اسلام کے حکم کی پابندی نہ کرے یا کسی مسلمان کوقتل کر دے یا اس کو دینی فتنہ میں مبتلا کر دے یا مسلمان عورت سے زنا کرے یا اس کے ساتھ نکاح کر لے یا لواطت کا مرتکب ہو جائے یا ڈاکہ ڈالے یا مسلمانوں کی جاسوسی کرے یا کسی جاسوس کو پناہ دے یا اللہ کو یا اس کے رسول ﷺ کو قرآن مجید کو یا دین اسلام کو برے الفاظ کے ساتھ یاد کرے تو ان صورتوں میں اس کا عہدہ ذمہ ٹوٹ جائے گا کیونکہ ان تمام جرائم کا عمومی نقصان تمام مسلمانوں کے مال و جان و آبروو اخلاق اور دین کو پہنچتا ہے ۔
الشیخ الموصوف لکھتے ہیں:
قيل لابن عمر رضى الله عنه ان راهبا يشتم النبى ﷺ فقال لو سمعته لقتلته انا لمن نعطيه الامان على هذا.( فقه السنة ج3ص 73)
حضرت عبد الله بن عمرکویہ اطلاع دی گئی کہ فلاں راہب رسول اللہﷺ کو گالی دیتاہے تو آپ نے فرمایا: اگر میں اس کو گالی دیتے ہوئے سن لیتا تو میں اس کی گردن ماردیتا کہ ہم نے اس کو رسول اللہﷺ کی گستاخی کرنے کی کےلیے پناہ نہیں دی۔
الشیخ موصوف ایسے بدبخت کاحکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
واذاتنقص عهده كان حكمه حكم الاسير فان اسلم حرم قتله لان الاسلام يهدم ما قبله – (فقه السنة ج3ص 73)
جب ذمی کا عہد ذمہ ٹوٹ جائے تویہ ذمہ قیدی کا حکم میں ہو گا اگر وہ اپنے جرم کی تلافی کےلیے مسلمان ہو جائے تو اس کو قتل کرنا حرام ہے کیونکہ اسلام ماقبل کے گناہوں اور جرائم کو ختم کر دیتا ہے ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ کی مہلت نہیں دی جائے گی ۔
اس طویل بحث و کرید کے مطابق یہ مسیحی شخص تو مہلت دیے بغیر واجب القتل ہے ، الا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لے مگر آپ یہ خوب جانتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف صاحب کی سوچ اور فکر ونظر کی بیٹری امریکہ اور برطانیہ سے چارج ہوتی ہے اور اس کی اسلام گریز پالیسیوں کی وجہ سے اس مسلمان ملک میں طاغوتی قوانین نافذ ہیں لہٰذا ہماری عدالتیں ایسے گستاخ رسول ﷺ کو سزائے موت تو سنا سکتی ہے مگر اس پر عمل نہیں کرا سکتیں ، اس لیے اس گستاخ رسول کو اپنے گاؤں سے ہمیشہ کےلیے نکال دیں اور اس کی سزا کامسئلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں کیونکہ جس گستاخ رسول ﷺکو کیفرکر دار تک پہنچانے سے مسلمان قاصر ہوں تو اللہ تعالیٰ اس سے خود انتقام لے لیتا ہے اور اپنے رسول کی نصرت و یاوری فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی یہی سنت چلی آرہی ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿فَاصدَع بِما تُؤمَرُ وَأَعرِض عَنِ المُشرِكينَ ﴿٩٤﴾ إِنّا كَفَينـكَ المُستَهزِءينَ ﴿٩٥﴾ ... سورة الحجر
پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے! اور مشرکوں سے منھ پھیر لیجئے،آپ سے جو لوگ مسخراپن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں
حديث قدسی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
من عادلى وليا فقد بارزنى بالمحاربة. (الصارم المسلول ص161)
کہ جس شخص نے میرے ولی سے عداوت رکھی اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا ۔
اور گستاخان انبیاء کی ہلاکتوں اور بربادیوں کے عبرت آموز واقعات قرآن مجید میں بکثرت موجود اور وارد ہیں ، تفصیل کی اب مزید حاجت ہے اور نہ گنجائش ۔
یہ اصغر نامی مسیحی شخص اگر واقعی گستاخی رسول کا مرتکب ہوا ہے تو اس کی شرعی سزا توبہ کی مہلت دیئے بغیر قتل ہی ہے اور اس پر فقہاء مذاہب اربعہ اور تمام محدثین کا اجماع اور اتفاق ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب