سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) صحیح حدیث پر رائے کو مقدم کرنے والا گمراہ ہے

  • 13493
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2685

سوال

(19) صحیح حدیث پر رائے کو مقدم کرنے والا گمراہ ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سنت ثابتہ (صحیح حدیث) پر رائے کو مقدم کرنےوالا آپ کے نزدیک کیسا مسلمان ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے فتویٰ درکار ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ چیز نصف النہار کی طرح روشن ہے کہ حدیث قرآن کی تشریح ، تفسیر اور اس کا مصدر ثانی ہے اور یہ بھی متفق علیہ ہے کہ نص پر اعتماد کیا جائے اور نص (واضح حکم ) کو ہر اس چیز پر ترجیح دی جائے اور مقدم رکھا جائے جو اس کے سواہے ،پس جس کئی مسئلہ کے بارے میں نص موجودہو تو اس سے تمسک کرنا شرعاً واجب ہے اورتمسک نہ کرنے والا حدود شرعیہ کے پھلانگ جانے والا ہو گا۔

امام شافعی کا دو ٹوك فیصلہ:

اذا كا ن لله فى الواقعة حكم فعلىٰ كل مسلم اتياعة . (السنة الجنة ص205)

 جب حتمی طور پر حکم اللہ کا ہی ہے تو پھر اس کی اتباع بھی ہر ایک مسلمان پر واجب ہے ۔

قرآن کی نصوص ، احادیث رسول ﷺ اور سلف صالحین کے آثار و اقوال بھی اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الكـفِرونَ ﴿٤٤﴾... سورةالمائدة

جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ ﴿٤٥﴾... سورة المائدة

اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں۔

﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الفـسِقونَ ﴿٤٧﴾... سورة المائدة

اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کرده سے ہی حکم نہ کریں وه (بدکار) فاسق ہیں۔

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١﴾... سورة الحجرات

’’ اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سننے واﻻ، جاننے والا ہے۔‘‘

تشريح

جب اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے کسی بات کو دین کا حصہ قرار نہیں دیا تو  تم اس دین کا جز کیوں ٹھہراتے ہیں ؟ جب ان دونوں نے کسی چیز کاحکم صادر نہیں فرمایا تو تم اسے کیوں صادرکرتے ہو؟ جب اللہ اور رسول ﷺ نے کوئی فتوی ٰ نہیں دیا تو آپ کیوں دیتے ہو؟ جب اللہ اور رسول ﷺ نے کسی چیز کو نہیں توڑا تو تم اسے کیوں توڑتے ہو ؟

سنت کی روشنی میں:

(1)...... عن  ابن عباس قال قال رسول الله ﷺ من قال فى القرآن برأيه فليتبوا مقعده من النار- قال هذا حديث حسن . (جامع الترمذى،مشكوة ص35)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو چاہیے کہ وہ اپنا گھر جہنم میں بنا لے ۔‘‘

(2)...... عن جندب قال قال رسول الله ﷺ من قال فى القرآن برايه فاصاب فقد أخطاء . (عون المعبود ج- مشكوة كتاب العلم ص35)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کی کتاب کے متعلق کوئی بات اپنی رائے سے کہی اگرچہ وہ صحیح ہو تب بھی اس نے غلطی کی ۔ ‘‘

(3)..... عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال رسول اللهﷺ : لم يزل امر نبى اسرائيل معتدلا حتى فيهم ابناء سباب الامم فافتوابالرأى فضلوا واضلوا – قال يحىى بن القطان اسناده حسن . (مجمع الزوائد)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی دینی شیرازہ بندی اس وقت تک قائم رہی جب تک ان  میں امت کی لونڈیوں کے بیٹوں نے جنم نہیں لیا۔ لہٰذا جب وہ پیدا ہوئے تو انہوں نے اپنی رائے سے فتوے جاری کیے تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسرے لوگوں کو بھی گمراہ کر ڈالا۔‘‘

(4)..... عن ابى هريره قال قال رسول اللهﷺ من افتى بغير علم كان اثمه على من افتاه. (رواه ابو داؤد مشكوة ص35)

حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کہ جو کوئی فتویٰ بغیر علم کے دیا گیا تو اس فتویٰ کا گناہ اس مفتی پر ہو گاجس نے اس کو فتویٰ دیا ۔‘‘

(5).... عبداللہ بن عمروبن العاص﷜ کی حدیث میں ہے کہ علم کا اٹھالیا جانا اس طرح ہو گا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لكن يقبض العلم يقبض العلماء حتى اذا لم يبق عالما اتخذا الناس رؤسا جهالا مسئلوا فافتوابغير علم فضلوا واضلوا. (متفق عليه )

لیکن اللہ تعالیٰ علماء کی موت سے علم کو قبض فرمائےگا ۔ یہاں تک کہ جب کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار پکڑیں گے ، پس ان سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بے علمی سے فتوے دیں گے ، پس خود گمراہ ہوں گے اور لوگوں کوبھی گمراہ کریں گے۔

(6)ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے گمراہ ہونے کے جواسباب ہیں وہ دین میں بدعات کی ایجاد ہے اور سبب نص صریح کے مقابلہ میں اپنی رائے کو ترجیح  دینا ہے ۔ امام ابو بکر ابن العربی مالکی نے اپنی کتاب ’’العواصم من القواصم  ‘‘ میں اسی سبب کی طرف اشارہ کیا ہے اور حضرت ابوہریرہ ﷜ کی حسب ذیل حدیث بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ۔

قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  تَعْمَلُ هَذِهِ الأَمَّةُ بُرْهَةً بِكِتَابِ اللَّهِ ، ثُمَّ تَعْمَلُ بُرْهَةً بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ تَعْمَلُ بَعْدَ ذَلِكَ بِالرَّأْيِ ، فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ ضَلُّوا . (مفتاح الجنۃ ص208)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ امت کچھ عرصہ تو کتاب اللہ پرعمل پیرارہے گی بعد ازاں کچھ وقت رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کرے گی ، پھر اس  کے بعد اپنی رائے کی پیروی کرے گی ۔ جب اس نے اپنی رائے پر عمل کیا تو پھر یقیناً گمراہ ہو جائے گی۔ ‘‘

اقوال صحابہ کی روشنی میں :

(1)جناب میمون بن مہران تابعی کا بیان ہے :

كان أبو بكر إذا ورد عليه الخصم نظر في كتاب الله فإن وجد فيه ما يقضي به بينهم قضى به و إن لم يكن في الكتاب و علم من رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذلك الأمر سنة قضى بها فإن أعياه خرج فسأل المسلمين و قال : أتاني كذا و كذا فهل علمتم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قضى في ذلك بقضاء ؟ فربما اجتمع إليه النفر كلهم يذكر عن رسول الله صلى الله عليه و سلم فيه قضاء فيقول أبو بكر : الحمد لله الذي جعل فينا من يحفظ عن نبينا فإن أعياه أن يجد فيه سنة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم جمع رؤوس الناس و خيارهم فاستشارهم فإن أجمع أمرهم على رأي قضى به.(سنن دارمی ۔الانصاف شاہ ولی اللہ ص38)

جب حضرت ابو بکر ﷜ کے پاس جب کوئی مقدمہ آتا تو پہلے وہ اس کا حل قرآن میں تلاش فرماتے ، اگر اس میں پاتے تو قرآن  ہی سے اس کافیصلہ کرتے ورنہ رسول اللہﷺ کی راہنمائی کی تلاش کرتے ۔ اگر اس میں کامیابی نہ ہوتی تو پھر صحابہ کا اجلاس بلاتے اور فرماتے کہ میں فلاں مسئلہ میں الجھ گیا ہوں لہٰذا اگرتم اس میں میری کوئی راہنمائی کر سکتے ہو تو ضر ور کرو۔ اور مجھے رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث بتلاؤ تاکہ میں اس کے مطابق فیصلہ کر سکوں ۔ اگر کسی کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ بتا دیتا ، بصورت دیگر ان سے مشورہ کرنے کے بعد جس رائے پر تمام صحابہ کا اتفاق ہوتا اس کے مطابق فیصلہ صادر فرماتے ۔

(2)فاروق اعظم ﷜ جب منبر پر جلوہ آراء ہوتے تو برملا فرماتے :

ايها الناس ان الرأى انما كان من رسول اللهﷺ وحيا لان الله تعالىٰ يريه وإنما هو منا الظن والتكلف . ( اعلام الموقعين و مفتاح الجنة)

حضرات ! جو اللہ کے رسول ﷺ کی رائے ہے وہ تو یقیناً وحی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو دکھا دیتا تھا ۔ لیکن ہماری جو رائے ہے وہ محض ظن اور تکلف ہے ۔

(3)ان کا دوسرا قول یہ بھی ہے :

اياكم واصحاب الراى فانهم اعداء السنن اعيتهم الاحاديث ان يحفظوها فقالوا بالرأى فضلوا واضلوا. (الرساله بحواله مفتاح السنه ص209)

آپ لوگ اصحاب الرای سے ضرور بچ کر رہیں کیونکہ وہ سنتوں کے دشمن ہیں ۔ ان کو احادیث رسول ﷺ نے تھکا دیا ۔ تو انہوں  نے اپنی رائے پر عمل کیا ، پس خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر دیا ۔

(4)حضرت علی کی تصریح :

لوكان الدين بالرأى فكان اسفل الخف اولىٰ بالمسح من اعلاه. (مفتاح النسة 209)

’’اگر دین کی اساس رائے ہوتی تو موزوں پر مسح اوپر کیے کے بجائے نیچے کرنا بہتر ہوتا۔‘‘

(5)امام شافعی ﷫ نے حضرت عمر﷜ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے انگوٹھے کی دیت کے پندرہ اونٹ مقرر کیے ، جو اس کے ساتھ ملی ہے اس کے دس ، وسطیٰ کے دس اور جو چھینگلی کے ساتھ والی ہے اس کے نو اور چھینگلی کے چھ۔ امام شافعی کہتےہیں کہ اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے ۔ واللہ اعلم ! حضرت عمر ﷜ کو رسول اللہﷺ کا ارشاد سمجھنے میں سہوہو گیا تھا کیونکہ پھر جب صحابہ ﷢ نے جناب عمروبن حزم کی کتاب دیکھی جو یقیناً رسول اللہﷺ کی لکھوائی ہوئی تھی تو اس میں لکھا تھا کہ ہر ایک انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے تو پھر حضرت عمر ﷜ نے اسی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی رائے واپس لے لی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک ہاتھ کی دیت پچاس اونٹ مقرر فرمائی ہے او رہاتھ بھی اصل  میں وہ ہے کہ جس کی پانچ انگلیاں فرق فرق پر ہوں ورنہ دیت میں بھی فرق آئے گا۔

امام محمدبن مسلم بن شہاب زہری کا بیان ہے :

دعوا السنة تمضى لاتعرضوا لها بالراى.

 سنت رسولﷺ کو اپنے حال پر چھوڑ دو کہ جاری رہے اور اس  کے مقابلہ میں کسی کی رائے مت پیش کرو ۔

حضرت ایوب سختیانی سے کسی نے سوال کیا کہ آپ رائے سے گریزاں کیوں ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا:

قيل للحمار لا تحبر قال اكره مضغ الباطل.

گدھے کوکہا گیا کہ تو جگالی کیوں نہیں کرتا تو اس نے جواب دیا کہ میں باطل کو چباتا پسند نہیں کرتا –

حاصل مطلب یہ کہ بدعت اسی وقت جنم لیتی ہے جب کہ آدمی نص کے مقابلہ میں اپنی یا کسی دوسرے کی رائے کو سامنے لاتا ہے ، اور پھر جس طرح رائے عام ہوتی جاتی ہے ، بدعت کا حدود اربعہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور نوبت بایں جارسید  کہ لوگ سنتوں سے بدکتے ہیں اور بدعات کو گلے لگانے لگ جاتے ہیں ، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ ہم اس رائے کی مذمت کر رہے ہیں جو قرآن کی نصوص اور احادیث صحیحہ ثابتہ پر مقدم سمجھی جاتی ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص158

محدث فتویٰ

تبصرے