السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مردے سلام اور دعائے مسنون سن سکتے ہیں نیز اس دعا کا کیا مطلب ہے اهل القبور يغفر الله لنا ولكم . یہاں پر ’’یا‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ نیز جب قبر میں تیسرا سوال کیا جاتا ہے کہ اس شخص یعنی محمد ﷺ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے تو کیا قبر میں حضور ﷺکو بھی حاضر کیا جاتا ہے ؟ اس حدیث کی پوری تشریح کر دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ صحیحہ سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے اور سماع اموات کا مروجہ عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے دلائل یہ ہیں :
﴿أَو كَالَّذى مَرَّ عَلى قَريَةٍ وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلى عُروشِها قالَ أَنّى يُحيۦ هـذِهِ اللَّهُ بَعدَ مَوتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِا۟ئَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَم لَبِثتَ قالَ لَبِثتُ يَومًا أَو بَعضَ يَومٍ قالَ بَل لَبِثتَ مِا۟ئَةَ عامٍ فَانظُر إِلى طَعامِكَ وَشَرابِكَ لَم يَتَسَنَّه وَانظُر إِلى حِمارِكَ وَلِنَجعَلَكَ ءايَةً لِلنّاسِ وَانظُر إِلَى العِظامِ كَيفَ نُنشِزُها ثُمَّ نَكسوها لَحمًا فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٢٥٩﴾... سورة البقرة
’’ یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے مار دیا سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
تفسیروں کے مطابق آیت شریفہ میں عزیر کی واردات کابیان ہے ۔ وہ سوبر س مرے رہے ۔ سوبرس کے اندر دھوپ ، سردی پڑی ، بادل گرجے ، بجلیاں کوندیں ، آدمی چلتے پھرتے رہے مگر ان کو کسی بات کی خبر نہ ہوئی ۔ اگر مردہ میں زندوں کا کلام اور فریاد سننے کی طاقت ہوتی تو بادل کا گرجنا ضرور سنتے ، انقلابات زمانہ سے باخبر ہوتے ، مردوں کے نہ سننے کے متعلق یہ سب بڑی دلیل ہے کہ عزیر کو نہ کچھ سنائی دیا اور نہ دکھائی دیا ۔
﴿وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة الفاطر
يعنى’’اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ‘‘
﴿إِنَّكَ لا تُسمِعُ المَوتى... ﴿٨٠﴾... سورة النمل
یعنی ’’ بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں۔‘‘
﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلى يَومِ القِيـمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الأحقاف
’’ اور اس سے بڑھ کر گمراه اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں ۔‘‘
﴿إِن تَدعوهُم لا يَسمَعوا دُعاءَكُم وَلَو سَمِعوا مَا استَجابوا لَكُم وَيَومَ القِيـمَةِ يَكفُرونَ بِشِركِكُم وَلا يُنَبِّئُكَ مِثلُ خَبيرٍ ﴿١٤﴾ ... سورة الفاطر
یعنی ’’ اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔‘‘
یہ پانچ نصوص قرآنیہ دلیل ہیں اس بات کی کہ مردوں میں سننے اور جواب دینے کی سرے سے اہلیت نہیں ۔
احادیث : بہت سی احادیث کی روسے بھی سماع موتی کی نفی ہوتی ہے ۔
السلام علیکم یا اهل القبور میں حرف ’’یا ‘‘ ندا اور خطابات کے معروف معنی میں نہیں کہا جاتا بلکہ اس بنا پر کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ قبرستان جا کر ایسا کہو اس سے خطاب سے استدلال کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ مردے سنتے ہیں صحیح نہیں ، حدیث صحیح میں ہے نم كنومة العروس ) مشكوة ص: فصل ثانى ص25)یعنی ’’فرشتے مسلمان میت کو کہتے ہیں کہ تو چونکہ مسلمان ہے اور ٹھیک جواب دے چکا ہے ،لہٰذا نئی نویلی دلہن کی طرح سوجا ، اور ظاہر ہے سوئے ہوئے کو کچھ سنائی نہیں دیتا ۔ کیونکہ نیند اور سماع دو متضاد چیزیں ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ بذات خود مردے میں سننے کی سرےسے اہلیت نہیں ہوتی ہاں جب اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی خاص وقت یا خاص موقع پر کوئی خاص بات ان کو سنانا چاہتا ہے تو وہ سنوا دیتا ہے ۔ تفسیر فتح البیان تالیف نواب صدیق حسن خان میں ہے :
وظاهر نفي إسماع الموتى العموم ، فلا يُخَصُّ منه إلا ما ورد بدليل ، كما ثبت في الصحيح أنه صلى الله عليه وسلم خاطب القتلى في قليب بدر ،فقيل له يا رسول الله انما تكلم اجسادا لا ارواح لها وكذا ما ورد من ان الميت يسمع خفق نعال المشيعين له إذا انصرفوا (فتح البیان ص85ج7)
اسی طرح فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے:
وقال ابن التين . لا معارضة بين حديث ابن عمر والآية ، لأن الموتى لا يسمعون بلا شك ، لكن إذا أراد الله إسماع ما ليس من شأنه السماع لم يمتنع ، كقوله تعالى : إنا عرضنا الأمانة الآية ، وقوله : فقال لها وللأرض ائتيا طوعا أو كرها (فتح البیان)
یعنی ابن تین کہتے ہیں کہ حدیث ابن عمر اور آیت انك لاتسمع الموتیٰ میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے ۔ مردے بلاشبہ نہیں سنتے مگر جب اللہ تعالیٰ سنانا چاہے تو جمادات اور غیر ذی عقل کو بھی سنا سکتا ہے ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پر بار امانت پیش کیا تھا حالانکہ زمین و آسمان میں اس کی سرے سے اہلیت نہ تھی اور پھر ان کو تکوینی طور پر بلا یا تو وہ بلاچوں و چراباگاہ صمدی میں حاضر ہو گئے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ چاہے تو مردوں کو بھی سنا سکتا ہے ، مگر مردوں میں اپنے طور پر کچھ بھی سننے کی اہلیت اور سکت نہیں ہوتی ۔
(ب) واضح ہو کہ ما تقول فى هذا الرجل میں کلمہ اسم اشارہ ہے جو موجود اور حاضر چیز کے متعلق خواہ مشار الیہ خارج سے جانے پہچانی ہے اور کوئی دوسرا پیغمبر اس ناموری میں آپ کا شریک و سہیم نہیں لہٰذا آپ کو نہ لایا جاتا ہے نہ پردے اٹھائے جاتےہیں بلکہ آپ ﷺ کے متعلق سوال کیا جاتا ہے کہ جس پیغمبر آخر الزمان کا دور ہے اور جس کی امت کروڑوں کی تعداد میں دنیا میں موجود ہے کیا تم اس کو نبی مانتےہو؟
چنانچہ صحیح بخاری میں ہے
عن انس ما تقول فى هذا الرجل لمحمد ؟ ( صحيح البخارى ، باب ما جاء فى عذاب القبر ج1 ص 178)
’’تو اس شخص کے متعلق یعنی محمد ﷺ ‘‘ کے متعلق کیا کہتا ہے ؟ (اس کو مانتا ہے ) صحیح بخاری کے حاشیہ میں ہے :
قيل يكشف للميت حتى يرى النبى وهى بشرى عظيمة للمؤمن ان صح ذالك ولا نعلم حديثا صحيحا مرويا فى ذالك والقائل به انما استند لمجرد ان الاشارة لا تكون الا للحاضر لكن يحتمل ان تكون الاشارة لما فى الدهن فيكون مجازا قاله . (العسقلانی ص184، ج1)
يعنی ’’ بعض کا خیال ہے کہ بطور انکشاف رسول اللہ ﷺ سامنے ہوتےہیں لیکن اس کا ثبوت مل سکے تو مسلمان کے لیے یہ بہت بڑی خوش خبری ہے ،مگر یہ کسی صحیح حدیث سے مروی نہیں ۔
یہ روایت جس نے ذکر کی ہے اس کو اسم اشارہ سے مغالطہ ہوا ہے کہ ’’ھذا ‘‘ موجود فی الخارج کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے حالانکہ لفظ ’’ھذا ‘‘ موجود فی الذہن کےلیے بھی بولا جاتا ہے اور یعنی مجاز کے طور پر بھی ۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ابوسفیان میں ہے کہ روم کے بادشاہ ہر قل نے اپنے دربار میں عربوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور جب ابو سفیان اور ان کے ساتھی مسلمان نہ تھے ہرقل کے دربار میں پیش کیے گئے ۔ ہرقل نے کہا :میرےپاس اس آدمی کی چٹھی آئی ہے اور پھر کہا :
ايكم اقرب نسبا بهذا الرجل الذى يزعم انه نبى؟ (صحيح البخارى ص4ج1)
یعنی ’’ تم میں سے کون شخص نسب کے لحاظ سے اس شخص کے زیادہ قریب ہے جو کہتا ہےکہ وہ اللہ کا نبی ہے ؟‘‘
غور فرمائیے کہ ہرقل حمص (شام کے علاقہ میں) اور رسول اللہﷺ مدینہ میں درمیان میں سینکڑوں میلوں کافاصلہ ہے ۔ اور دوری اور بعد کے باوجود ہرقل حمص میں غیر موجود محمدﷺ پر لفظ ’’ھذا‘‘ بول رہا ہے ۔ اس کے اور بھی بہت نظائر مل جائیں گے ۔ ( صحیح بخاری ص18 و 39و126و144و373و412و544و 615و 633)
لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ موجود فی الذہن پر کلمہ ھذا مجاز اً بول دیا جاتا ہے ۔ ہر قبر میں جناب رسول اللہ ﷺ کا حاضر ہونا بالکل بے دلیل اور کچی بات ہے ۔ رہا حافظ عبد اللہ روپڑی کا موقف تو وہ صرف کسی صحیح حدیث پر مبنی نہیں بلکہ جمہور اہل الحدیث اور سلف و خلف کے سراسر متصادم ہے لہٰذا در خواعتنا ہرگز نہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب