جو شخص ہر صبح سورت یسین کی تلاوت کرتا ہے تو اس دن کی تمام حاجتیں پوری ہوں گی ۔اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
یہ روایت سنن الدارمی ( ج 2ص457 ح3421 وطبعۃ محققہ ح 3461) میں " عطا ء بن ابي رباح ( تابعي ) قال :ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال" کی سند سے موجود ہے ،اور دارمی ہی سے صاحب مشکوۃ نے (ح 21277بتحقیقی) نقل کی ہے۔
یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ ضعیف ہے اور " بلغنی " کا نام فاعل نامعلوم ہے ،
سورہ یس کی فضیلت میں درج ذیل مرفوع روایات بھی ضعیف ومردود ہیں:
( جامع ترمذی ح2887 من حدیث قتادۃ عن انس رضی اللہ عنہ وتبلیغی نصاب ص 292 فضائل قرآن ص58)
امام ترمذی اس روایت کے ایک راوی ہارون ابو محمد کے بارے میں فرماتے ہیں" شیخ مجہول " لہذا یہ روایت ہارون مذکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ شیخ البانی ؒ نے اسے موضوع قراردیا ہے۔ (الضعیفۃ ج 1ص202ح169)
امام ابو حاتم الرازی نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی: مقاتل بن سلیمان (کذاب) ہے ( علل الحدیث ج2 ص 1652) جبکہ سنن ترمذی وسنن الدارمی (ج 2ص 456ح3419) تاریخ بغداد (ج 4ص 167) میں مقاتل بن حبان ( صدوق) ہے ۔واللہ اعلم
درج بالا روایت کا ترجمہ جناب زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے: ہر چیز کےلیے ایک دل ہوا کرتا ہے۔ قرآن شریف کا دل سورہ یس ہے ۔ جو شخص سورہ یس پڑھتا ہے حق تعالی شانہ اس کے لیے دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے "
2)اس باب میں سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ روایت کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ " ولايصح من قبل اسناده ضعيف " ترمذي :٢٢٨٨٧)
3) "ان لكل شئي قلبا وقلب القرآن يس " ( کشف الاستار عن زوائد البزارج 3ص 87 ح 2304 من حدیث عطا عنن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ )
اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں :
"وحميد هذا مجهول كما قال الحافط في التقريب وعبدالرحمن في التقريب وعبدالرحمن بن الفضل شيخ البزار لم اعرفه "( الضعيفه ج١ص ٢-٤)یعنی اس کا( بنیادی ) راوی حمید ( المکی مولیٰ علقمۃ / تفسیر ابن کثیر 3/ 570 مجہول ہے ۔ جیساکہ حافظ (ابن حجر ) نے تقریب التہذیب میں کہا ہے اور بزار کے استاد : عبدالرحمن بن الفضل کو میں نہیں جانتا ۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت دو راویوں کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
( مسند ابی یعلی ج11ص 93۔ 94 ح 6324 وغیرہ من طریق ہشام بن زیاد عن الحسن قال: سمعت ابا ہریرۃ بہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ ہشام بن زیاد متروک ہے (التقریب ص 364 ت:7292 )
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ، حسن بصری کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے دوسرے یہ کہ وہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں ۔
6) " من قرا يس في ليلة ابتغاء وجه الله غفرله " (صحيح ابن حبان : موارد الظمان ح 665 وغیرہ عن الحسن (البصری ) عن جندب رضی اللہ عنہ بہ)
اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ابو حاتم رازی نے کہا : لم يصح للحسن سماع من جندب " (المراسيل ص٤٢) نیز دیکھئے حدیث سابق: 5
اس کی سند ایک مجہول راوی: ابو عثمان غیر النہدی اور اس کے باپ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ یہ روایت مختصرا مسند احمد (5/ 26، 27) مستدرک الحاکم (1/ 565 ) صحیح ابن حبان ( الاحسان 7/ 269 ح2991 ونسخہ محققہ ح: 3002) سنن ابی داود (3121) اور سنن ابن ماجہ ( 1448) میں موجود ہے ۔اس حدیث کو امام دارقطنی نے ضعیف قراردیا ہے ۔ مسند احمد (4/ 105) میں اس کاایک ضعیف شاہد بھی ہے ،
8َ) من قرا يس في ليلة اصبح مغفورا له" –( حلیۃ الاولیاء 4/ 130 من حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )
اس کی سند ابو مریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی کی وجہ سے موضوع ہے ۔ابو مریم مذکور کذاب اور وضاع تھا۔ دیکھئے لسان المیزان (ج 4ص 50۔51)
یہ روایت حارث اعور کے شدید ضعف ( مع تدلیس ابی اسحاق) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
اس کاراوی ابراہیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے ۔ (لتقریب :166)
یہ روایت موضوع ہے ۔ یوسف بن عطیہ الصفار متروک تھا ۔ ( دیکھئے تقریب التہذیب:7872)
اور ہارون بن کثیر مجہول ہے ۔ دیکھئے لسان المیزان (ج 6ص 218)
یہ روایت حسان بن عطیہ کی وجہ سے مرسل ہے۔
( شعب الایمان ح 2465 للعقیلی ج 2ص 143الامالی للشجری ج 1ص 118 تاریخ بغداد للخطیب ج 2ص 387، 388 والموضوعات لابن الجوزی ص 347 ج1 تبلیغی نصاب ص 292 فضائل القرآن ص 58۔59)
اس روایت کی سند موضوع ہے محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکرالجدعانی متروک الحدیث ہے اور دوسرے کئی راوی مجہول ہیں امام بیہقی فرماتے ہیں : " وهو منكر " امام عقیلی نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے ۔اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد اور الموضوعات لابن لاجوزی میں ہے ،اس کا راوی محمد بن عبد بن عامر السمر قندی کذاب اور چور تھا۔
یہ روایت موضوع ہے ۔اس کے کئی راویوں مثلاً عمر بن سعد الوقاصی ، ابو حمض بن عمر بن حفص اور ابو عامر بن عبدالرحیم کی عدالت نامعلوم ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ سورت یسین کی فضیلت میں تمام مرفوعس روایات ومردود ہیں۔
امام دارمی ؒ فرماتے ہیں : " حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مَنْ قَرَأَ يس حِينَ يُصْبِحُ، أُعْطِيَ يُسْرَ يَوْمِهِ حَتَّى يُمْسِيَ، وَمَنْ قَرَأَهَا فِي صَدْرِ لَيْلِهِ، أُعْطِيَ يُسْرَ لَيْلَتِهِ حَتَّى يُصْبِحَ
"ہمیں عمر وبن زرارہ نے حدیث بیان کی ہے :ہمیں عبدالوہاب الثقفی نے حدیث بیان کی : ہمیں راشد ابو محمد الحمانی نے حدیث بیان کی ، وہ شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ ( سیدنا) ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت یسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہوگی ۔اور جو شخص رات کے وقت یسین پڑھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہوگی ( یعنی اس کے دن ورات آرام وراحت سے گزریں گے۔) ( سنن الدارمی 1/ 457 ح 3422 دوسرا نسخہ :3462 وسندہ حسن )
اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
1) عمروبن زرارہ : ثقة ثبت ( تقریب التہذیب :5032)
2) عبدالوھاب الثقفی : ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين ( التقريب :٤٢٦١) لكنه ماضر تغيره حديثه فانه ماحدث بحديث في زمن التغير ّ ( میزان الاعتدال 2/681)
3)راشد بن نجیح الحمانی ( صدوق ربما اخطا ( تقريب التهذيب : ١٨٥٧)
وحسن له البوصيري ( زوائد ابن ماجه :٣٣٧١)
یہ حسن الحدیث راوی تھے ۔
4)شہر بن حوشب فیہ راوی ہیں جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے ۔ ( کما حققتہ فی کتابی تخریج النھایہ فی الفتن والملاحم ص 119،120)
حاٖفظ ابن کثیر ان کی ایک روایت کو حسن کہتے ہیں ( مسند الفاروق ج 1ص 228)
میری تحقیق میں یہ راوی حسن الحدیث ہیں ۔واللہ اعلم
خلاصہ یہ کہ سند حسن لذاتہ ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب