بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد فورا اپنے ماتھے پر دایاں ہاتھ رکھ دیتے ہیں یااسے پکڑلیتے ہیں اور کوئی دعا پڑھتے رہتے ہیں ۔کیا اس عمل کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں موجود ہے۔ تحقیق کرکے جواب دیں ۔جزاکم اللہ خیرا۔
سلام الطویل المدائنی عن زید العمی عن معاویہ ب قرہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت ہے: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا قضي صلاته مسح بيده اليمني ثم قال :« اشهد ان لااله الالله الرحمن الرحيم ‘اللهم اذهب عني الهم والحزن »
رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز پوری کرتے (تو)اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے چھوتے پھر فرماتے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے وی رحمن ورحیم ہے ،اے اللہ ! غم اور مصیبت مجھ سے دور کردے ۔ (عمل الیوم واللیہ لابن السنی ح والفظ لہ۔الطبرانی فی الاوسط 3/243 دوسرا نسخہ :2499 کتاب الدعاء للطبرانی 2/1092ح 659 الامالی لابن سمعون :ح 121 نتائج الافکار لابن حجر 2/301 ،حلیہ الالیاء لابی نعیم الاصبہانی 6/301۔302)
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے سلام الطویل المدائنی : متروک ہے ۔(التقریب:2702)
امام بخاری نے فرمایا :" ترکوہ " ( کتاب الضعفاء مع تحقیقی :تحفۃ الاقویاء ص 51 ت:155)
حاکم نیشا پوری نے کہا: اس نے حمید الطویل ،ابوعمر وبن العلاء اور ثور بن یزید سے موضوع احادیث بیان کی ہیں ۔(المدخل الی الصحیح ص 144 ت:73)
حافظ ہیثمی نے کہا : " وقد اجمعوا علی ضعفه" اوراس کے ضعیف ہونےپر اجماع ہے۔ (مجمع الزوائد ج1ص 212)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : "والحديث ضعيف جدا بسببه " اور (یہ) حدیث سلام الطویل کے سبب کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔( نتائج الافکار 2/301)
اس سند کا دوسرا راوی زیدالعمی : ضعیف ہے ۔( تقریب التہذب :2131)
اسے جمہور( محدثین ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔( مجمع الزوائد 10/110/260)
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں :" وبقية رجال احد اسنادي الطبراني ثقات وفي بعضهم خلاف" اور طبرانی کی دو سندوں میں سے ایک سند کے بقیہ راوی ثقہ ہیں اور ان میں سے بعض میں اختلاف ہے (مجمع الزوائد 10/110)
طبرانی والی دوسری سند تو کہیں نہیں ملی ،غالبا حافظ ابن الہیثمی کا اشارہ البراز کی ""حدثنا الحارث ابن الخضر العطار ّثنا عثمان بن فرقد عن زيد العمي عن معاويه بن قرة عن انس بن مالك رضي الله عنه ۔۔۔الخ والی سند کی طرف ہے ۔ ( دیکھئے کشف الاستار 4/22ح 3100)
عرض ہے کہ الحارث بن الخضر العطار کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے ۔اور یہ عین ممکن ہے کہ اس نے عثمان بن فرقد اور زید العمی کے درمیان سلام الطویل المدائنی کے واسطے کو گرا دیا ہو۔اگر نہ بھی گرایا ہوتو یہ سند اس کے مجہول ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔۔
دوسری روایت : کثیر بن سلیم عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی ہے :
رسول اللہﷺ جب اپنی نماز پوری کرتے تو دائیں ہاتھ سے اپنی پیشانی کا مسح کرکے تین دفعہ فرماتے: اس اللہ کے نام کے ساتھ ( شروع) جس کے علاوہ کوئی(برحق) الہ نہیں ہے ۔اے اللہ ! میرے غم اور مصیبت کو دور کردے۔
(الکامل لابن عدی 7/199 ترجمۃ کثیر بن سلیم ۔والفظ لہ الاوسط للطبرانی 4/126ح 3202 وکتاب الدعاء للطبرانی 2/1095ح 658۔للامام للشجری 1/249 وتاریخ بغداد 12/480 ونتائج الافکار 2/301،302)
کثیر بن سلیم کے بارے میں اما م بخاری فرماتے ہیں :" منکر الحدیث" (کتاب الضعفاء بتحقیقی تحفۃ الاقویاء :316)
جسے امام بخاری منکر الحدیث کہہ دیں ۔ان کے نزدیک اس راویسے روایت حلال نہیں ہے ۔( دیکھئے لسان المیزان ج 1ص 20)
کثیر بن سلیم کے بارے میں امام نسائی فرماتے ہیں: " متروك الحديث" (کتاب الضعفاء والمترکین :506)
متروک راوی کی روایت شواہد ومتابعت میں بھی نہیں ہے۔ ( دیکھئے اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر (ص 38،النوع الثانی تعریفات اخری للحسن )
خلاصۃ التحقیق : یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ سخت ضعیف ہے۔
شیخ البانیؒ نے بھی اسے "ضعیف جداً " سخت ضعیف قراردیا ہے ۔ ( السلسلۃ الضعیفہ 2/114ح 660)
تنبیہ : سیوطی نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے ۔(الجامع الصغیر :6741)
محمد ارشاد قاسمی دیوبندی نے اسے بحوالہ الجامع الصغیر ومجمع الزوائد نقل کرکے "بسند ضعيف " لکھا ہے ( یعنی اس کی سند ضعیف ہے ) لیکن اس غالی دیوبندی نے عربی عبارت (جس میں روایت مذکور پر جرح ہے) کا ترجمہ نہیں لکھا۔
دیکھئے "الدعاء المسنون " (ص 212پسند کردہ " مفتی " نظام الدین شامزئی دیوبندی )
دیوبندی وبریلوی حضرات سخت ضعیف ومردود روایات عوام کے سامنے پیش کرکے دھوکا دے رہے ہیں ۔ کیا یہ لوگ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہیں؟
الغرض اس ساری بحث کا ما حصل یہ ہے کہ نماز کے بعد ،ماتھے پر ہاتھ رکھ لر دعا کرنے کا کوئی ثبوت نبی ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتابعین عظام رحمہم اللہ سے نہیں ہے ۔لہذا اس پر عمل سے مکمل اجتناب چاہیے ۔ وماعلینا الالبلاغ (19/ صفر 1426ھ)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب