سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سفر کی مسافت اور قصر نماز

  • 13419
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 995

سوال

سفر کی مسافت اور قصر نماز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  1) کیا 12 میل سفر کی نیت  سے گھر  سے نکلا جائے تو نماز قصر کرسکتا  ہے؟

2)کسی جگہ  پر قیام کی نیت چار دن  سے زیادہ ہوتو نماز  کو پورا پڑھناچاہیے  یا قصر ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم  کتاب  صلوۃ المسافرین  باب اول ج1ص 242 حدیث : 691 میں  ہے:

عَنْ يَحْيَى بْنِ يَزِيدَ الْهُنَائِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنْ قَصْرِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَمْيَالٍ، أَوْ ثَلَاثَةِ فَرَاسِخَ - شُعْبَةُ الشَّاكُّ - صَلَّى رَكْعَتَيْنِ۔

 یحیی بن یزید الہانی  سے راویت  ہے کہ  میں نے انس بن مالک  (رضی اللہ عنہ) سے نماز قصر  کے بارے  میں سوال  کیا تو انھوں  نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تین  میل  یا تین فرسخ  (نومیل) کے لیے نکلتے تو  دو رکعتیں  پڑھتے ، تین  میل  یا تین  فرسخ  کے بارے  میں شعبہ کوش شک ہے ۔

 شک  کو دور کرتے ہوئے  نو میل کو اختیار  کریں ،  جو کہ  عام گیارہ  میل کے  برابر  ہے  لہذا ثابت  ہوا کہ  کم از کم گیارہ  میل ( تقریبا  20 یا 22 کلو میٹر) کے سفر پر قصر  کرنا جائز ہے ۔

اگر کسی  شخص کی نیت  چار  دن سے زیادہ  قیام کی ہوتو بھی قصر  پڑھے  گا تاہم  روایت ابن  عباس رضی اللہ عنہ کی رو سے  اگر اس کا ارادہ  بیس  دن یا اس سے زیادہ   ہو تو اسے نماز  پوری پڑھنی  چاہیے م

 صحیح بخاری  ( ابواب  تقصیر  الصلوۃ  ، باب ماجاء  فی التقصیر وکم  یقیم  حتی  یقصر ج 1ص147 حدیث:  1080) میں ہے :

" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةَ عَشَرَ يَقْصُرُ، فَنَحْنُ إِذَا سَافَرْنَا تِسْعَةَ عَشَرَ قَصَرْنَا، وَإِنْ زِدْنَا أَتْمَمْنَا۔

 ابن عباس  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہت کہ جب نبی ﷺ نے (ایک جگہ) انیس دن قیام  کای۔ آپ قصر کرتے رہے ، پس  ہم جب  انیس دن (قیام ) کا سفر کرتے  توقصر کرتے  اور اگر  اس سے زیادہ  (قیام ) کرتے  تو پوری  (نماز)  پڑھتے ۔

اس کے مقابلے  میں تین  یا چار  دن کی کوئی صریح  دلیل نہیں ہے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص436

محدث فتویٰ

تبصرے