السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب عمرہ یا حج کرنے والے کو بہت کم دعائیں یاد ہوں تو کیا وہ طواف و سعی اور دیگر مناسک کے موقع پر دعاؤں کی کتابوں سے دیکھ کر دعائیں پڑھ سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے وہ دعائیں ہی کافی ہیں، جو اسے یاد ہوں کیونکہ جب وہ ان دعاؤں کو پڑھے گا جو اسے یاد ہوں، تو وہ ان کے معنی بھی جانتا ہوگا، لہٰذا وہ حسب ضرورت دعائیں کرے گا اور اگر وہ کتاب سے ایسی دعائیں پڑھے یا مطوف (طواف کروانے والے) کے ساتھ ایسی دعائیں دوہرائے، جن کے معنی کو وہ نہ جانتا ہو تو ایسی دعاؤں سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بہت سے لوگ مطوف کے ساتھ ساتھ دعائیں پڑھتے جاتے ہیں مگر انہیں ان دعاؤں کے معنی معلوم نہیں ہوتے جو مطوف پڑھتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لو گ کتابوں سے دیکھ کر دعائیں پڑھتے ہیں اور انہیں ان کے معنی معلوم نہیں ہوتے، پھر ان کتابوں میں ہر چکر کی الگ الگ خاص دعائیں بھی لکھی ہوتی ہیں اور یہ سب دعائیں بدعت ہیں۔ مسلمانوں کے لیے انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ساری دعائیں ضلالت ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے طواف کے ہر چکر کی کوئی خاص دعا متعین نہیں فرمائی بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے:
«اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِةِ ذِکْرِ اللّٰهِ»(سنن ابي اداؤد، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، وجامع الترمذي، الحج، باب ماجاء کيف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، ومسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ له)
’’بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘
لہٰذا مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ ان کتابوں سے پرہیز کرے، اپنی ضرورت وحاجت کے مطابق اللہ سے دعا کرے اور استطاعت وعلم کے مطابق اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کتابچوں سے دیکھ کر ایسی دعائیں پڑھے جن کے معنی وہ جانتا ہی نہیں۔ معنی کو جاننا تو دور کی بات، شاید وہ ان کے الفاظ بھی نہیں پڑھ سکتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب