نماز میں قرآن کی چند آیات کا جواب دینا جیساکہ مذکور ہے کیا یہ درست ہے اور ان کا جواب تمام مقتدیوں کو دینا چاہیے یا صرف امام کو اور اگر مقتدی جواب دے تو وہ جہری طور پر دے یا دل میں ؟
صحیح مسلم ( صلاۃ المسافرین باب استحاب تطویل القراء ۃ فی صلوۃ اللیل ح 772) میں ثابت ہے کہ نبی ﷺ جب رات کی نماز میں تسبیح والی آیت پڑھتے تو تسبیح فرماتے جب دعا والی آیت پڑھتے تو دعا فرماتے اور جب تعوذ پناہ والی آیت پڑھتے تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے ۔
امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ( سیدنا ) ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھی ۔ جب آپ نے ﴿ سبح اسم ربك الاعلي﴾ کی تلاوت کی تو کہا : سبح السم ربك الاعلي ( المصنف ج 2ص 508 ح 8640 وسندہ صحیح )
تقریبا یہی عمل ، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ غیرہما سے ثابت ہے ۔(المصنف 2/509 ح8643 وسندہ صحیح 8647،وسندہ صحٰیح )
لہذا امام کے لئے جائز ہے کہ جمعہ وغیرہ میں آیت کی تلاوت کے بعد کبھی کبھار اس کا جواب بھی عربی زبان میں ہی جہرا یا سردا دے دے تاہم مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ مقتدی حضرات بھی آیات کا جواب دیں گے ! لہذا نمازیوں کو چاہیے کہ وہ حالت جہر میں امام کے پیچھے صرف سورہ فاتحہ پڑھیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب