سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز میں مخصوص آیات کا جواب دینا

  • 13391
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 712

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں قرآن  کی چند  آیات  کا جواب دینا  جیساکہ مذکور  ہے کیا یہ درست ہے  اور ان  کا جواب  تمام مقتدیوں  کو دینا  چاہیے  یا صرف  امام کو اور اگر  مقتدی  جواب دے  تو وہ جہری  طور پر  دے  یا دل میں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم  ( صلاۃ المسافرین  باب استحاب تطویل  القراء ۃ  فی  صلوۃ اللیل ح 772) میں ثابت  ہے کہ نبی ﷺ جب  رات کی نماز  میں تسبیح  والی آیت  پڑھتے  تو تسبیح  فرماتے  جب  دعا والی آیت  پڑھتے  تو دعا فرماتے  اور جب  تعوذ پناہ  والی آیت پڑھتے  تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے  تھے ۔

امام ابوبکر  بن ابی شیبہ  نے صحیح  سند  کے ساتھ  روایت  کیا ہے  کہ ( سیدنا ) ابو موسی  الاشعری رضی اللہ عنہ  نے جمعہ کی نماز  پڑھی ۔ جب آپ  نے ﴿ سبح اسم ربك الاعلي﴾ کی تلاوت  کی تو کہا  : سبح السم ربك الاعلي ( المصنف  ج  2ص 508 ح 8640 وسندہ صحیح )

 تقریبا یہی عمل  ، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  اور  سیدنا عبداللہ بن الزبیر  رضی اللہ عنہ  غیرہما  سے ثابت  ہے ۔(المصنف  2/509  ح8643 وسندہ صحیح 8647،وسندہ صحٰیح ) 

لہذا امام کے لئے جائز ہے  کہ جمعہ  وغیرہ  میں آیت کی تلاوت  کے بعد کبھی  کبھار  اس کا جواب  بھی عربی زبان  میں ہی  جہرا  یا سردا دے دے  تاہم   مجھے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی  کہ مقتدی  حضرات  بھی آیات کا جواب دیں گے ! لہذا نمازیوں  کو چاہیے کہ  وہ حالت  جہر میں امام کے پیچھے  صرف  سورہ فاتحہ  پڑھیں  ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص401

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ