ایک حدیث میں آیا ہے:
جس نے عمداً نماز چھوڑی تو وہ ہماری حالت ملت سے خارج ہوگیا ۔اس حدیث تخریج درکار ہے ۔
امام طبرانی ؒ نے فرمایا:
اسے محمد بن نصر المروزی (تعظیم قدر الصلوۃ 2/889 ح 920، وھو کتاب الصلوۃ لہ) امام بخاری ( التاریخ الکبیر 4/75 مختصر) ابن ابی حاتم الرازی (التفسیر 5/1414ح 8058مختصرا) ہبۃ اللہ الکلائی (شرح اصول واعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ 4/822،823 ح 1522) فیما یقال ) نے سعید بن ابی مریم المصری : ثقہ ثبت فقیہ /تقریب التہذیب :2286) کی سند سے روایت کیا ہے ،ضیاء المقدسی نے کتاب :الاحادیث المختارہ(4/287۔288 ح351)میں امام طبرانی کی سند اور (ح 350) دوسری سند سے سعید بنا بی مریم سے روایت کیا ہے۔
امام بخاری فرماتے ہیں: "لايعرف اسناده " اس کی سند معروف نہیں ہے۔
سلمہ بن شریح کو ابن حبان نے کتاب الثقات (4/318) میں ذکر کیا ہے۔
حافظ ضیاء المقدسی نے اس کی حدیث کو المختارہ میں لاکر صحیح قرار دیا ہے جو کہ توثیق ہے ۔
یزید بن قودر کو بھی ابن حبان اور ضیاء المقدسی نےثقہ قرار دیا ہے، باقی راوی ثقہ و صدوق ہیں ۔اس لحاظ سے یہ سند حسن ہے لیکن شیخ البانی ؒ نے سلمہ بن شریح کے بارے میں حافظ ذہبی کے قول :" لايعرف"( میزان الاعتدال 2/190ت3402) سے استدلال کرتے ہوئے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور الترغیب والترہیب للمنذری کے تین معلقین کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے:
"ولا شاهد لفقرة الخروج من الملة وغيرها وقد وقع في مثله بعض من نظن فيه العلم من الكتاب المعاصرين "اور ملت(اسلامیہ )سے خروج وغیرہ کے فقرے کا کوئی شاہد نہیں ہے، معاصر لکھاریوں میں سے بعض ( یعنی الشیخ عبدالرحمن بن عبدالجبار الفرایوائی ۔الہندی) جن کے علم کے بارے میں ہم ( حسن) ظن رکھتے ہیں اسی خطا میں گرگئے ہیں ( یعنی اس روایت کو شواہد کی وجہ سے صحیح قراردیا ہے حالانکہ یہ روایت ضعیف ہے۔) (ضعیف الترغیب والترہیب 1/161، تحت ح300)
تنبیہ : حافظ اس کی صرف ایک ہی سند ہے ممکن ہے کہ ان کی مراد یہ ہوکہ "باسنادین عن سعید بن ابی مریم "واللہ اعلم۔اب اس حدیث کے شواہد کاجائزہ درج ذیل ہے:
سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مجھے میرے خلیل نبی ﷺ نے وصیت فرمائی : یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراناگرچہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اور تمہیں جلا دیاجائے تو بھی فرض نماز ترک نہ کرنا۔ جس نے اسے (نمازکو) چھوڑدیا تو وہ ذمے سے بری ہے۔شراب نہ پینا کیونکہ ہر برائی کی جڑ یہی ( شراب) ہے (سنن ابن ماجہ :4034/3371مختصرا وسندہ حسن وحسنہ البوصیری وقال الالبانی فی الاول ؒ حسن " فی الثانی "صحیح " یعنی بشواہدہ)
(الطبرانی فی الکبیر 24/ 190 ح 479 وقال الہیثمی : وفیہ یزید بن سنان الرھاوی وثقہ وغیرہ تضعیفہ وبقیہ رجالہ ثقات ، مجمع الزوائد 4/ 217)
یزید بن سنان الرہاوی ضعیف قراردیا ہے ۔
(احمد 5/238ح 22425)
یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔حافظ المنذری نے کہا:
فان عبدالرحمن بن جبير بن نفير لم يسمع من معاذ" (الترغيب والترهيب ١/٣٨٣ ح٨-٧)المعجم الکبیر للطبرانی (20/82/ ح 156) میں اس مفہوم لہ دوسری سند بھی ہے جس میں عمر بن واقد ہے جس کے بارے میں حافظ ہیثمی نے کہا : وهو كذاب "( مجمع الزوائد 4/215) اور ابن حجر نےنے کہا : " متروک " (التقریب :5132)
( مسند عبد بن حمید المنتخب :1592،والفظ لہ ،احمد 6/421 ح27908 مختصرا والبیہقی 7/304)
یہ روایت منقطع ہے حافظ ابن السکن نے کہا:
" هو مرسل لان مكحولا لم يدرك ام ايمن " (الاصابة ٤/٢٤٣ت١١٢)تاريخ ومشق لابن عساكر (٦٥/170) میں اس روایت کی سند مکحول وسلیمان بن موسی عن ام ایمن سے ہے ۔ یہ سند بھی منقطع اور ضعیف ہے
مجھے اس روایت کی سند کہیں نہیں ملی ۔ایسی بے سند روایات مردود کے حکم میں ہوتی ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ " فقد خرج من الملة" کے الفاظ صر ف عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ والی روایت ہی میں ہیں ، دوسری روایت میں نہیں،اس جواب کے شروع میں یہ تحقیق گزرچکی ہے کہ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی سند حسن ہے ۔
تنبیہ1) المعجم الاوسط للطبرانی (4/ 211ح 3376) کی ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ( من ترك الصلوة متعمدا فقد كفر جهارا)
اس روايت کے راویوں پر مختصر تبسرہ درج ذیل ہے :
1) جعفر( بن محمد الفریابی ): كان ثقة امينا حجة ( تاریخ بغداد 7/200ت 3665)
2) محمد بن ابی داود الانباری : اس کے حالات نامعلوم ہیں شیخ البانی ؒ کا یہ خیال ہے کہ یہ شخص کتاب کتاب الثقات لابن حبان (9/95) اور تہذیب التہذیب (9 /177ت 312) کا راوی محمد بن ابی داوددالحرانی ہے (السلسلہ الضعیفۃ 6/ 12 ح 2508) ابن الحرانی کی وفات 213ھ ہے ۔ تہذیب الکمال 16/ 324 ) جبکہ جعفر الفریابی کی پیدائش 207ھ میں یعنی الحرانی کی وفات کے بعد شروع کی تھی ۔لہذا یہ ظاہر ہے کہ ابن ابی داود کوئی دوسرا شخص ہے ۔الحرانی کے شیوخ میں ہاشم بن القاسم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
3) ہاشم بن القاسم :ابو النضر ثقة ثبت ( التقريب :٧٢٥٦)4) ابو جعفر الرازي : حسن الحديث ‘ وثقه الجمهورّ
( ديكهے تسہیل الحاجۃ : 70 ونیل المقصود :1182)
لیکن اگر وہ ربیع انس سے روایت کرے تو لوگ اس کی روایت سے بچتے ہیں ۔ ( الثقات لابن حبان 4/328)
یعنی ابو جعفری الرازی کی ربیع بن انس سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔
5) ربیع بن انس : حسن الحديث ہیں ( نیل المقصود 1/47 ح 1182)
6) انس بن مالک رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے ۔
تنبیہ 2: عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ والی روایت میں " فمن تركها متعمدا فقد خرج من الملة " كے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مطلقا نماز (الصلوۃ) پڑھنا چھوڑدے کبھی نہ پڑھے تو یہ شخص نلت سے خارج ہوجاتا ہے ، معلوم ہوا کہ جو شخص سستی وغیرہ کی وجہ سے کبھی کبھار نمازیں نہیں پڑھتا تو ایسا شخص یہاں مراد نہیں ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب