سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

رفع الیدین احادیث سے ثابت ہے

  • 13365
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2810

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ بات  درست ہے کہ رفع الیدین ( یعنی کندھوں تک ہاتھ  نہ اٹھانا ) دونوں  عمل احادیث  سے ثابت ہیں ؟ نیز  اس شخص کے بارے  میں کیا حکم ہے  جو نماز میں کبھی  رفع الیدین کرتا ہے اور کبھی نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس روایت  کی سند سخت  ضعیف ہے ۔

نماز میں تکبیر اولی  ' رکوع  سے پہلے  اور اس کے بعدوالا رفع یدین  صحیح  اور متواتر  احادیث  سے ثابت  ہے، دیکھئے  قطف  الازہار  المتناثرہ  للسیوطی  لقط  اللالی  المتناثر  من الحدیث  المتواتر اللکتانی  اور میری  کتاب  " نورالعین  فی (اثبات ) مسئلہ  رفع الیدین "(ص 82،87 ونسخہ  جدید ص 122،123)

 رفع یدین  کے متواتر  ہونے کا اعتراف دیوبندیوں میں انور شاہ کشمیری  صاحب نے بھی کیا ہے۔( دیکھئے  نیل الفرقدین ص 22)

متواتر  حدیث  (یونانی  علم کلام اور متعارض  ومتناقص اصول  فقہ  والوں کے نزدیک  بھی)  قطعی  اور یقینی  ہوتی ہے 'اس کے صحیح  ہونے میں کوئی شک نہیں  ہوتا جیسا کہ  اصول میں  مقرر ہے ۔اس کے مقابلے  میں مخالفین  رفع یدین  دو قسم  کی روایات  پیش کرتے ہیں :

1۔ وہ صحیح  روایتیں  جن  میں رکوع سے پہلے  اور بعد والے  رفع  یدین  کا ذکر  ہی نہیں  ہے،مثلاً صحیح مسلم  میں سیدنا  جابر بن  سمرہ رضی اللہ عنہ  والی  حدیث سیدنا  جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ   والی حدیث  (جس  میں سرکش گھوڑوں  کی دموں  کاذکر  آیا ہے) کے بارے میں  محمود حسن دیوبند ی صاحب فرماتے  ہیں:

" باقی  اذناب  خیل  کی روایت  سے جواب  دینا  بروئے  انصاف  درست  نہیں کیونکہ  وہ سلام  کے بارے میں  ہے" ( تقاریر شیخ  الہند  ص 65 مطبوعہ  ادارۃ  تالیفات اشرفیہ ' ریلوے  روڈ  ملتان )

اس حدیث  کے بارے میں  محمد تقی  عثمانی  دیوبند  صاحب فرماتے ہیں :

لیکن  انصاف  کی بات یہ ہے کہ  اس حدیث  سے حنفیہ  کا استدلال  مشتبہ اور کمزور ہے ۔کیونکہ  ابن  القبطیہ  کی روایت  میں سلام  کے وقت  جو تصریح  موجود  ہے اس کی موجودگی  میں ظاہر  اور متبادر  یہی ہے  کہ حضرت  جابر  رضی اللہ عنہ   کی یہ حدیث رفع  عندالسلام  ہی سے متعلق  ہے" (درس ترمذی  ج  2ص 36)

2۔  وہ روایتیں  جن سے  ترک  رفع یدین کا اشارہ ملتا ہے ، مثلا حدیث ابن مسعود  رضی اللہ عنہ   وغیرہ  لیکن انصاف یہ ہے کہ  یہ ساری  روایتیںاصول حدیث کی رو سے  ضعیف  ومردود ہیں ۔

راقم الحروف  نے نورالعینین (ص  92تاص 106، طبع  جدیدص 125۔158) میں متعدد دلائل  سے سفیان ثوری  کی سند سے سیدنا  ابن مسعود  رضی اللہ عنہ   کی  طرف منسوب  روایت  کا ضعیف  و مردود ہونا ثابت  کای ہے اور لکھا ہے کہ  " یہ حدیث علت  قادحہ  کے ساتھ  معلول ہے  اور سندا اور متنا دونوں طرح  سے ضعیف ہے"( ص 96،والفط لہ  ،طبع  جدید  ص130)

اور ایک  مجہول  شخص "ابو  بلال جھنگوی " نے تحفہ  اہلحدیث (نمبر  2)  نامی کتابچہ  لکھاہے  جسے ادارہ  "العزیز " نزد  جامع  مسجد صدیقیہ ، گلہ برف خانہ ، سیالکوٹ  روڈ  کھوکھر  کی گوجرانوالہ ،سے  شائع  کیا گیا ہے۔اس  کتابچہ کے صفحہ  159  پر اس   مجہول  مصنف مے حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ   کے بارے میں لکھا ہے  کہ " زبیر  علی زئی ۔۔۔۔۔ نے نورالعینین  میں صحیح کہا"!!!

 حالانکہ  راقم الحروف  نے اس روایت  کو نہ صحیح  کاہ  اور نہ حسن  ،بلکہ  اس کے برعکس  اس  راویت  کا ضعیف  اور مردود  ہوناثابت  کیا ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ مجہول  مصنف  کذاب  اور ساقط  العدالت  ہے۔ بعض  لوگ  اس قسم کی کتابیں  ، رسالے  اور مضامین  وغیرہ   پڑھ   کر بغلیں  بجانا شروع  کردیتے ہیں  کہ ہم نے  اہل حدیث  کو شکست  دے دی ،حالانکہ  ان لوگوں  کے لیے مناسب  یہ ہے کہ  وہ اپنے  افتراء ت ،اکاذیب  اور دھوکہ  دہی  پر بغلیں   جھانکیں ۔

یہ مجہول  شخص  بعد میں معروف  ہوگیا  مگر  کذب  وافتراء  کے ساتھ  ،اس کا  نام ولقب  ابو بلال محمد اسماعیل  جھنگوی  ہے۔اسماعیل جھنگوی  مذکور  کے  اکاذیب  وافتراءات  اور مکر وفریب  کے لیے دیکھئے  ماہنامہ  الحدیث  :35(ص 51 تا60اسماعیل  جھنگوی  کے پندرہ  جھوٹ )

پچھلے  ہفتے  ایک صاحب  ،محمد  یوسف  لدھیانوی (دیوبندی ) کی کتاب  "اختلاف  امت اور صراط مستقیم" لے آئے ۔ جب  راقم الحروف  نے  مسندالحمیدی  ومسندابی  عوانہ  کے قلمی  نسخوں  بعد  از تحقیق دیوبندی مذہب  کو الوداع  کہہ کر  کتاب  وسنت  کا راستہ اختیار کرلیا۔ والحمد للہ

مختصر  یہ کہ  رفع یدین  قبل الرکوع وبعدہ  کا ترک  ،منسوخ  یاممنوع ہونا کسی  صحیح  حدیث  سے ثابت نہیں  ہے۔ تفصیل  کے لیے امام بخاری  کی جزء رفع یدین  ،وغیرہ  کا مطالعہ  کریں ۔

 تنبیہ : تحقیق بالا سے ثابت  ہوا کہ  نماز میں رکوع سے پہلے  اور بعد والا رفع  یدین ہمیشہ  کرنا چاہیے  اور اسے کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے  ۔ جو شخص کبھی  کرتا  ہے  اور کبھی  نہیں کرتا  ۔اس  کا م موقف  صحیح  احادیث کے خلاف  ہونے  کی وجہ سے  غلط  ہے ۔                                                     (شہادت  فروری  2000)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج1ص351

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ