سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(591) رمضان میں ایک نیکی ستر نیکیوں کے برابر اور گناہ؟

  • 13333
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4024

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضا ن المبارک میں  ہر نیک  عمل کا ثواب  ستر درجے  بڑھ  جا تا ہے کیا اسی طرح گناہ  میں بھی اضا فہ ہو تا ہے اگر ہو تا  ہے تو کیا یہ اس  کی شان  کر یمی کے خلا ف نہیں ؟ اور رمضا ن کی بر کا ت پر حرف  نہیں آئے گا ۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان  میں نیکی کا اجر و ثواب ستر  گنا بڑھنے والی  روایت سند اًاگر چہ  ضعیف  ہے ۔لیکن اس میں کو ئی شک نہیں کہ صدق  واخلا ص کے اعتبار  سے ایک نیکی بلا حساب  تک جا پہنچتی ہے ۔

قرآن مجید میں ہے ۔

﴿إِنَّما يُوَفَّى الصّـٰبِر‌ونَ أَجرَ‌هُم بِغَيرِ‌ حِسابٍ ﴿١٠﴾... سورة الزمر

اہل تا و یل  و تفسیر  نے "صابرون  "کی تشریح  روزہ داروں سے کی ہے ۔

اور صحیح  حد یث میں ہے ۔

«الا الصوم فانه لي وانا اجزي به»

اور جہا ں تک برا ئی کا تعلق  ہے  سواس کے  ارتکا ب  سے رمضا ن  غیر رمضا ن  میں اضا فہ  نہیں ہو تا  ہے حدیث  میں ہے ۔

«فان هو هم بها فعملها كتبها الله له سئة واحدة»(صحيح بخاری)

یعنی"بندہ اگر گناہ  کا قصد کر کے برا ئی کر گزر تا  ہے تو اللہ تعا لیٰ اس کے لیے  صرف ایک  بر ائی  درج کرتا ہے ۔اور قرآن مجید میں ہے ۔.

﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ‌ أَمثالِها ۖ وَمَن جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها وَهُم لا يُظلَمونَ ﴿١٦٠﴾... سورة الانعام

"جو کو ئی (اللہ کے حضور ) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں  ملیں گی اور جو برا ئی لائے گا اسے  سزاویسی  ہی  ملے گی ۔"

اور الاعرج کی رو ایت میں ہے ۔

«فاكتبوها له بمثلها»اور صحیح مسلم میں ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت  میں ہے ۔

«فجزاءه بمثلها او اغفر»اور صحیح  مسلم میں ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی رو ایت  کے اخیر میں الفاظ  یو ں ہیں۔

«اويمحوها»مفہوم اس کا یہ ہے  کہ اللہ تعا لیٰ  اپنے فضل  و کرم یا تو بہ  یا استغفاریا اچھا  عمل کرنے سے برا ئی کو مٹا دیتا ہے لیکن پہلا معنی  حدیث ابوذر کے قر یب تر ہے ۔حا فظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔

«ويستفاد من التاكيد بقوله واحدة ان السئة لا تضاعف كما تضاعف الحسنة وهو علي وفق قوله تعاليٰ : ﴿فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا﴾

یعنی" سیئہ کے ساتھ  واحدۃ  کی تا کید  سے یہ با ت مستفاد ہے کہ برا ئی میں اضا فہ  نہیں ہو تا جس طرح کہ نیکی میں کئی گناہ اضا فہ ہوتا  ہے اور یہ اللہ  کے فر ما ن

﴿فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها... ﴿١٦٠﴾... سورة الانعام

کے عین  مطا بق  ہے ۔ابن عبد  السلام  نے اپنی "امالی " میں کہا تا کید کا فائدہ  یہ ہے  کہ یہاں  اس شخص  کا وھم  رفع  کرنا  مقصود  ہے  جو یہ سمجھتا ہے کہ انسان  جب برا ئی کرتا ہے تو برا عمل  اس پر لکھ  دیا جا تا ہے اور قصد برا ئی  بدی میں مزید اضا فہ  کا مو جب ہو تا ہے ۔

دراں حا لیکہ معا ملہ اس طرح نہیں برا ئی صرف ایک  ہی لکھی  جا تی  ہے ہاں  البتہ بعض اہل علم  حرم  مکی  میں  برا ئی کے ارتکا ب کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اسحا ق  بن منصور  نے کہا :میں نے امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  سے دریا فت کیا

«هل ورد في شئي من الحديث ان السئة  تكتب باكثر من واحدة؟ قال : لا ما سمعت الا بمكة لتعظيم الحرم»

"کیا کسی حدیث  میں وارد ہے کہ برا ئی بھی ایک سے زیادہ  لکھی جا تی ہے جواباً فر ما یا : میں نے یہ بات کسی سے نہیں سنی ہاں البتہ حرم  کی تعظیم  و احترا م  کی خا طر مکہ میں اضافہ  ہو جا تا ہے ۔"

 تا ہم جمہور زمان  و مکا ن  کے اعتبار سے عظیم  کے قا ئل ہیں  لیکن بعض  دفعہ  شنا عت کا تفادت پا یا  جاتا ہے اس پر یہ اعترا ض وارد نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید  میں ازواج  مطہرا ت کے بارے  میں تو تضعیف  عذاب  کی نص مو جو د ہے ۔

ارشاد با ری تعا لیٰ ہے ۔

﴿مَن يَأتِ مِنكُنَّ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضـٰعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَينِ... ﴿٣٠﴾... سورة الاحزاب

’’تم میں سے جو کو ئی صریح  نا شائستہ  الفاظ  کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایذاءدینے  کی حرکت کرے اس کو دگنی سزا دی جا ئے  گی ۔‘‘

تو اس کا جواب  یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق کی عظمت کی بناء  پر ہے کیو نکہ  ازواج  مطہرا ت  سے فحش  گو ئی  کا وقو ع  ایک  زائدہ امر  کا متقاضی  ہے وہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرا می کو اذیت دینا ۔(فتح الباری 11/328۔329)

اس سا ری بحث کا حاصل یہ ہے کہ برا ئی صرف ایک ہی برا ئی رہتی  ہے اس میں اضا فہ  نہیں ہو تا چا ہے مو سم رمضا ن ہو یا غیر لیکن  ایا م  مبا رکہ میں اس کے وقو ع پر نکیر  کا سختی  سے اظہار کیا گیا ہے ۔

«یا باغی الشر اقصر»میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ۔ (قال الترمذی :ہذا حدیث غریب )

دوسری روا یت میں ہے ۔

«من لم یدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في ان يدع طعامه وشرابه» (صحيح بخاري باب من لم يدع قول الزور)

امت  مر حو مہ پر اللہ رب العزت  کا عظیم  احسا ن ہے کہ ایک ایک نیکی  میں بے پنا ہ  اضا فہ کر دیا ۔ جبکہ بدی میں تعدی کے بجا ئے اسے اپنی جگہ بند رکھ کر تو بہ  و انابت کی دعوت عام دی تا کہ گناہ گا ر سیاہ کا ر بندے اس کی آغوش  رحمت  میں داخل ہو کر بہشت کے وارث بن سکیں اسی بناء  پر تر غیب  دی گئی ۔

«من قام ليلة القدر ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه ومن قام رمضان ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه»(صحيح بخاري كتاب الصيام)

اور جب اس کی مرضی ہو تو حقوق العباد کو بھی  معا ف فر ما کر  ظالم و مظلو م اور قا تل  و مقتو ل  دونوں کو خوش  کر دیتا ہے ۔

﴿لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣﴾... سورة الانبياء

﴿ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ‌ الذُّنوبَ جَميعًا... ﴿٥٣﴾... سورة الزمر

لہذا یہ اعتقاد  رکھنا کہ رمضا ن  المبارک میں نیکی  کی طرح برا ئی میں بھی اضا فہ ہو تا ہے بالا  شر عی  نصوص کے منا فی نظریہ ہے اللہ رب العزت جملہ مسلما نو ں  کو بر کات  رمضا ن  سے مستفید  ہو نے کی تو فیق  بخشے  آمین!

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص865

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ