السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان میں بار بار عمرے کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا دو عمروں کے مابین کوئی مدت مقرر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ماہ رمضان میں بار بار عمرے کرنا بدعت ہے کیونکہ ایک ہی مہینے میں عمروں کی تکرار سلف کے عمل کے خلاف ہے حتیٰ کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فتاویٰ میں ذکر فرمایا ہے کہ باتفاق سلف عمروں کی تکرار اور کثرت مکروہ ہے، خصوصاً رمضان میں عمروں کا تکرار۔ اگر یہ پسندیدہ امر ہوتا تو ہماری نسبت سلف اس کے زیادہ خواہش مند ہوتے اور بار بار عمرے کرتے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سب لوگوں سے زیادہ تقویٰ شعار تھے اور سب لوگوں سے زیادہ نیکی کے کاموں سے محبت فرمانے والے تھے، فتح مکہ کے سال انیس دن مکہ میں مقیم رہے اور نماز قصر ادا فرماتے رہے مگر آپ نے اس عرصے میں عمرہ نہیں کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب عمرے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اصرار کیا تو آپ نے ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ حرم سے نکل کر غیر حرم تک جائیں تاکہ وہ عمرے کا احرام باندھ لیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ بھی عمرہ کریں۔ اگر یہ شریعت کا تقاضا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھی عمرے کا حکم دیتے اور اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے تقاضائے شریعت سمجھتے تھے۔ دونوں عمروں کے درمیان معین مدت کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے انتظار کرنا چاہیے حتیٰ کہ سر کے بال اگ کر سیاہ نظر آنے لگیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب