سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(493) حج کی غلطیوں کا کفارہ کہاں ادا کیا جائے؟

  • 1331
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1539

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج ادا کرتے ہوئے ایک حاجی سے کچھ غلطیاں سر زد ہوگئیں لیکن اس کے پاس کفارہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں اور وہ اپنے ملک واپس چلا گیا۔ کیا اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ کفارہ وغیرہ ادا کر سکتا ہے یا اس کے لیے مکہ میں ہونا لازم ہے؟ اور اگر مکہ میں ہونا لازم ہے، تو کیا وہ کسی کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 جواب دینے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس سے کون سی غلطی سرزد ہوئی۔ اگر اس نے کسی واجب کو ترک کر دیا ہے، تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ فدیے کا جانور مکہ میں ذبح کرے، اس کا تعلق حج سے ہے، لہٰذا یہ مکہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ ذبح نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس نے کسی ممنوع کام کا ارتکاب کیا ہے، تو اس کے لیے تین امور میں سے کوئی ایک امر کافی ہے: (۱)چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے اور یہ کھانا مکہ میں کھلائے یا اس جگہ جہاں اس نے ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ (۲)تین روزے رکھے اور وہ یہ روزے مکہ میں بھی رکھ سکتا ہے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کے رکھنے کا جواز ہے اور نمبر (۳)حج میں تحلل اول (پہلی مرتبہ حلال ہونے) سے پہلے جماع کر لینے کی صورت میں اس کے لیے ایک اونٹ ذبح کرنا واجب ہے، جسے وہاں ذبح کیا جائے، جہاں اس نے اس ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے یا وہ مکہ میں ذبح کر کے اسے وہاں کے فقرا میں تقسیم کر دے یا اگر اس کو شکار کا بدلہ دینا ہے، تو وہ فدیہ اس شکار جیسا جانور ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا یا روزے رکھنے ہوں گے۔ روزے کسی بھی جگہ رکھے جا سکتے ہیں اور اگر کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا ہے، تو اس کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هَديًا بـلِغَ الكَعبَةِ...﴿٩٥﴾... سورة المائدة

’’یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے۔‘‘

لہٰذا اس کا حرم کے اندر ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلے میں وہ کسی کو اپنا وکیل بھی مقرر کر سکتا ہے ’’کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی قربانی کے باقی ماندہ اونٹ ذبح کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا۔‘‘(1)


(1)(سنن ابي داؤد، المناسک، باب الہدی اذا عطب قبل ان یبلغ، حدیث: ۱۷۶۴ وقال الالبانی ’’منکر‘‘)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ433

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ