سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(565) ناخن پالش لگانے کا حکم

  • 13307
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1982

سوال

(565) ناخن پالش لگانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے لئے ناخن پالش لگانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان عورت کے لئے ناخن پالش کا استعمال بعض وجوہات کی بناء پر غیر درست ہے۔

اولاً:اس عمل کو ایجاد کرنے والی یورپین غیر مسلم فاحشہ عورتیں ہیں۔

ثانیاً:اس فعل کے ارتکاب سے ان کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔حدیث میں ہے:

«من  تشبه بقوم فهو منهم» (حسنه وصححه الباني صحيح ابي دائود كتاب اللباس باب في لبس الشهوة (4031) الارواء (١٢٦٩) المشكاة (٤٣٤٧)رواه ابو دائود احمد)

یعنی جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔وہ ان سے شمار ہوتا ہے۔''

ثالثاً:عمل ہذا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کو مستلز م ہے جس کے فاعل پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے فرمایا:

«المغیرات خلق اللہ» (رواہ البخاری فی صححه ومسلم)

پھر یہ بات  روز ر وشن کی طرح عیاں ہے کہ کافر عورتیں اور مخنث مردوں کی ایک طویل عرصہ سے عادت مستمرہ ہے کہ وہ اپنے ناخنوں کو لمبا کرکے مخصوص انداز میں رنگ لیتے ہیں۔ان کی دیکھا دیکھی بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ قبیح  رسم مسلم معاشرہ میں بھی دیمک کی  طرح سرایت کرچکی ہے جس سے ہر صورت اجتناب ضروری ہے اس کے علاوہ شنید ہے کہ اس کے اجزاء ترکیبی میں حرام کی آمیزش ہوتی ہے پھر بوقت وضو پانی بھی اس میں حلول نہیں کرتا اس بناء پر اندیشہ ہے کہ اصلاً وضو ہی نہ ہو۔تاہم اگر اس کے اجزائے ترکیبی میں مباح اشیاء استعمال کی گئی ہوں اور وضو کا پانی اس میں سے گزرکر ناخن تک پہنچ سکتا ہو تو پھر اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔

جواب تعاقب از حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ

ناخن پالش کے فتویٰ پر چند اعتراضات کا جائزہ

مورخہ 14 جون 1996ء  کے ہفت روزہ ''الاعتصام'' میں میرا ایک  فتویٰ شائع ہوا۔اس میں ناخن پالش کے استعمال کو چند وجوہات کی بناء پر ناجائز قرار  دیا گیا تھا۔اسلام آباد سے ایک مراسلہ کےذریعہ محترم عزیزالرحمٰن صاحب نے اس فتوےسے عدم اتفاق کا اظہار فرمایا ہے۔بحث کےآغاذ میں ہمارے ایک شیخ محدث روپڑی کے ایک فتویٰ کی طرف توجہ بھی مبذول کرائی ہے۔اس سے یہ تاثر قائم کرنا مقصود ہے کہ وہ ناخن پالش کے جواز کے قائل ہیں۔اس کے باوجود کے ان کے  طریقہ استدلال سے خود مطمئن نہیں کہ ناخن پالش کو مہندی پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔معلوم نہیں کہ فتویٰ ہذا پر پھر ان کو اطمینان کیسے حاصل ہوگیا؟وضاحت کردیتے تو ممکن ہے میرے لئے بھی موجب اطمینان بن جاتا۔حالانکہ اکثر وبیشتر حالات میں دلائل کی  بنیاد پر ان کا  فتویٰ میرے لئے تسکین وتسلی کا باعث ہوتا ہے یہاں دلیل کے مفقود ہونے کی بناء پر میں نے اس کو ترک کردیا ہے بہرصورت میرے تفصیلی فتویٰ سے جن چند باتوں پر موصوف معترض ہیں مع جوابات ملاحظہ  فرمائیں۔

فرماتے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ناخن پالش کی موجد یورپ کی فحش اور گمراہ خواتین ہیں تو باوجود تلاش بسیار کے مجھے اس بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت نہیں مل سکی۔

جواباً عرض ہے کہ عالم اسلام کے اس وقت مشہور محقق وعظیم محدث شیخنا علامہ ناصر الدین البانی  رحمۃ اللہ علیہ  جو اصلاً یورپی النسل ہیں۔اپنی مشہور معروف تالیف ''آداب الذفاف فی السنۃ المطھرۃ'' میں رقم طراز ہیں۔

«هذه العاده القبيحة الاخري التي تسربت من فاجرات اوربا الي كثير من المسلمات وهي   تدميهن لاظفارهن بالصمغ الاحمز المعروف اليوم» ’’مينكور’’(ص١١٥-١١٦ ط٣)

یعنی'' یہ دوسری وہ قبیح عادت ہے جو یورپ کی بدکار عورتوں سے بہت ساری مسلمان عورتوں میں سرایت کرچکی ہے اور وہ ہے سرخ گوند کے ساتھ ان کا اپنے ناخنوں کو رنگنا۔آج کے دور میں اسے '' مینکور کہا جاتا ہے۔(اُمید ہے اہل یورپ کے  گھر کی شہادت موجب اطمینان ہوگی۔''

پھر  فرماتے ہیں میں نے اپن طور پر ناخن پالش کے اجزاء  ترکیبی پر بھی نگاہ ڈالی ہے اس میں عام طور پر عام قسم کی اشیاء اور خوشبو جات استعمال کی جاتی ہیں ان میں کوئی حرام شے شامل نہیں۔آنجناب کو اس سلسلہ میں میرا مشورہ ہے بجائے خودتحقیق کرنے کے جو کمپنیاں اور کارخانے شب وروز اس کاروبار میں مصروف کار ہیں ان کے ذمہ داران حضرات سے رابطہ کرکے معلومات کاملہ حاصل کریں۔

توقع ہے اس طرح ہمارے اختیار کردہ نظریہ کی تایئد ہوگی اور اگر بالفرض آپ کے حاصل کردہ حقائق اس کے منافی ہوئے تو مجھے رجوع میں کوئی عار نہیں ہوگی۔بلکہ میرے لئے باعث افتخار اور آپ کا شکر گزار ہوگا۔نیز فرماتے ہیں:

آخر میں یہ بھی عرض کردوں کے وضو کے سلسلہ میں یہ واضح ہے کہ ناخن پالش سے رنگے ناخنوں تک پانی نہیں پہنچتا۔آج کل مارکیٹ میں بے شمار قسم کے محلول دستیاب ہیں جو پانی کی طرح ناخن پالش کو اتار دیتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ناخن پالش استعمال کرنا چاہے وہ ساتھ محلول بھی خریدے  تاکہ نماز کے وقت اس کا وضو درست ہوسکے پھر پانچ وقتی نماز کے لئے اس کا التزام عادۃ نہایت دشوار ہے دوسری طرف دولت کا ضیاع ہے ۔جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ہے:

«نھی عن اضاعة المال»

ناخن پالش کو بار بار لگانا اور بار بار اتارنا کیا مال ودولت کا ضیاع نہیں ہے؟کوئی بھی زی شعور اس سے انکار نہیں کرسکتا اللہ رب العزت ہم سب کو سمجھ عطا  فرمائے۔آمین!

اخیر میں ا ُمید ہے آپ مجھے ناخن پالش کی جملہ اقسام کے بارے میں دستاویزی ثبوت فراہم کرکے ممنون فرمائیں گے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص842

محدث فتویٰ

تبصرے