السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص بھول کر یا ناواقفیت کی وجہ سے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو حالت احرام میں ممنوع ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب وہ ممنوعات احرام میں سے کسی چیز کا اس وقت ارتکاب کرے، جب اس نے احرام تو پہن لیا ہو لیکن ابھی تک نیت نہ کی ہو تو اس پر کچھ لازم نہیں کیونکہ اعتبار نیت کا ہے، محض احرام کے پہننے کا نہیں اور جب وہ نیت کر لے اور حج یا عمرے میں داخل ہو جائے، پھر بھول کر یا عدم واقفیت کی وجہ سے ممنوعات احرام میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ لازم نہیں، البتہ اگر وہ بھول جانے کی وجہ سے کوئی ممنوع کام کر رہا ہو تو اسے یاد دلا دیا جائے اور اگر عدم واقفیت کی وجہ سے کر رہا ہو تو اسے معلوم کروا دیا جائے اس کے بعد اس شخص کے لیے واجب ہے کہ اب وہ اس ممنوع کام کو ترک کر دے۔
اس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی محرم بھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن لے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی لیکن جب اسے یاد دلا دیا جائے تو اس کے لیے واجب ہوگا کہ وہ ان کپڑوں کو اتار دے۔ اسی طرح اگر بھول جانے کی وجہ سے اس نے ابھی تک شلوار پہنی ہو اور پھر اسے نیت کرنے اور لبیک کہنے کے بعد یاد آیا ہو تو واجب ہے کہ وہ شلوار کوفوراً اتار دے، اس صورت میں اس پر کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ جاہل تھا اور اسے حکم شریعت کا علم ہی نہ تھا تو اس پر بھی کچھ لازم نہ ہوگا، مثلاً: اگر وہ سویٹر پہن لے جس کی سلائی تو نہ ہوئی ہو، البتہ اسے بنا گیا ہو اور اس نے یہ خیال کیا ہو کہ ایسا کپڑا پہننے میں کوئی حرج نہیں جس میں سلائی نہ کی گئی ہو اور جب اس کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے کہ اگرچہ سویٹر میں سلائی نہیں ہوتی لیکن حالت احرام میں اسے پہننا بھی ممنوع ہے، تو اس کے لیے واجب ہوگا کہ اسے فوراً اتار دے۔ اس سلسلے میں عام اصول یہ ہے کہ انسان جب ممنوعات احرام میں سے کسی فعل کو بھول جانے یا عدم واقفیت کی وجہ سے یا مجبور کر دیے جانے کی وجہ سے کرے تو اس پر کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہوتا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا رَبَّنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘
اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورة الأحزاب
’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے شکار کے بارے میں فرمایا ہے، جو ممنوعات احرام میں سے ہے:
﴿وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُتَعَمِّدًا...﴿٩٥﴾... سورة المائدة
’’اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے (تو اس کا بدلہ دے ۔‘‘)
اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ ممنوع امور کا تعلق لباس سے ہو یا خوشبو سے، شکار مارنے سے ہو یا سر کے بال منڈا دینے وغیرہ سے۔ اگرچہ بعض علماء نے فرق کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ وہ ممنوع امور ہیں جن میں انسان بھول جانے یا عدم واقفیت یا مجبور کر دیے جانے کی وجہ سے معذور ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب