السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علماء نے حقوق اللہ میں تو بہ کی تین شرائط بیان کی ہیں لیکن اگر حقوق النا س سے ہو تو مزید ایک اور شرط بڑھا دی ہے اور وہ ہے کہ اس مظلوم بھا ئی کے حق کو ادا کرے یا اس سے معانی مانگے تو اس سے پتہ یہ چلا کہ جب تک وہ مظلوم اسے معاف نہیں کر ے گا تب تک اس کا یہ گنا ہ اگر اللہ تعا لیٰ سے تو بہ کر ے تب بھی معاف نہیں ہو سکتا لیکن یہاں چند اعترا ضات کر سکتے ہیں وہ یہ کہ قرآن کی آیت ۔
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا ﴿٤٨﴾... سورة النساء
اس سے پتہ چلا کہ شرک کے علا وہ با قی تمام گنا ہ خواہ حقوق اللہ میں سے ہو ں یا حقوق النا س سے وہ اللہ تعالیٰ معاف کر سکتا ہے ۔
اور دوسری آیت:
﴿وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا ﴿٦٨﴾... سورة الفرقان
﴿إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان
اس میں بھی قتل اور زنا کے بعد تو بہ کے ساتھ ہی مطلق معا ف کرنے کا ذکر ہے اور یہ حدیث کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے مکمل ایک سواشخاص کو مو ت کے گھا ٹ ارتا ر دیا تھا پھر اس نے اللہ تعا لیٰ کی طرف تو بہ کی تو اس کی تو بہ قبول ہو ئی اور وہ جنت کا مستحق ہوا حا لا نکہ یہ حقوق الناس اور اللہ دونوں میں سے ہے اور اس شخص نے مقتول کے ورثاء میں سے کسی سے نہ معافی مانگی ہے نہ ان کی دیت ادا کی ہے لہذا ان دلا ئل کی روشنی میں معلوم ہو تا ہے کہ حقوق النا س میں بندوں سے معافی ما نگے بغیر اگراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے توبہ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ (إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ)والی آیت عمو میت پر دلا لت کر تی ہے لہذا اس کے لیےقصاص کی ضرورت ہے جو ہما رے خیا ل کے مطا بق مو جو د نہیں عا جز نے بڑے بڑے علما ء سے اس کے با رے میں استفسا ر کیا لیکن کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ۔اسی لیے آپ کو اس چیز کی تکلیف دے رہا ہو ں اللہ تعا لیٰ آپ کا حا می و نا صر ہو ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ عام قاعدہ ضابطہ یہی ہے کہ جب تک صاحب حق سے تصفیہ نہ ہو اس وقت تک انسان حقوق العباد سے بری الذمہ قرار نہیں پا تا لیکن یہ با ت کہیں نہیں کہ اللہ تعا لیٰ کی خاص نظر شفقت سے بھی ایسے شخص کو معافی نہیں ملتی بلکہ نصوص شریعت سے یہ با ت عیا ں ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی صفت رحمانیت و رحیمیت کا جب تقاضا ہو تو بڑے بڑے گنہگا روں اور سیاہ کا روں کے لیے بھی عفود کرم کا دروازہ کھل جا تا ہے سب کو پکڑ کر جنت میں داخل کر دے یا جہنم میں ڈال دے کو ئی اس سے پو چھنے والا نہیں ۔
"مشکوۃ المصابیح "کے با ب "الایمان فی القدر "میں ایک روایت کے الفا ظ ہیں :
«لو ان الله عزوجل عذب اهل سماواته واهل ارضه عذبهم وهو غير ظالم لهم ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم» صححه الباني وحمزة صحيح ابي دائود كتاب السنة باب في القدر (٤٦٩٩) ابن ماجه (٧٧) احمد(٥ /١٨٣-١٩٩)
"اگر اللہ عزوجل ارض و سماء کی تما م مخلو ق کو پکڑ کر عذاب میں مبتلا کر دے تو پھر بھی وہ بے انصاف نہیں ٹھہرتا اور اگر تمام کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے تو ان کے اعمال سے اس کی رحمت کہیں بہتر ہے ۔"
پھر قرآن مجید میں بھی بڑے واضح الفاظ میں مو جو د ہے ۔
﴿لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣﴾... سورة الأنبياء
"وہ اپنے کا مو ں کے لیے (کسی کے آگے )جوابدہ نہیں اور سب (اس کے آگے )جوابدہ ہیں ۔
امام طحا وی رحمۃ اللہ علیہ عقیدہ طحا ویہ "میں فرماتے ہیں ۔
«فمن سال لم فعل ؟ فقد رد حكم الكتاب ومن رد حكم الكتاب كان من الكافرين»
یعنی "جس نے بطور تعنت کہا اللہ نے فلا ں کا م کس لیے کیا ہے ؟اس نے کتا ب کے حکم کو رد کیا اور جس نے کتا ب کا حکم رد کیا اس کا شمار کا فروں سے ہے کیو نکہ بندے کا کا م صرف انقیاد و تسلیم ہے ۔" اور انجیل میں ہے ۔
«يا بني اسرائيل لا تقولوا لم امر ربنا ولكن قولوا بم امر ربنا؟»
"اے بنی اسرا ئیل مت کہو ہما رے پروردگا ر نے ہمیں کس لیے حکم دیا ہے لیکن یہ کہو کہ ہما رے پر وردگا ر نے ہمیں کس شئی کا حکم دیا ہے ؟
(بحوالہ شرح العقیدۃ الطحاریۃص:239)
مذکورہ صورت حا ل کے پیش نظر کر کے ان کی بد اعما لیوں اور سیا ہ کا ر یوں پر رحمت کا قلم چلا کر تو بہ و استغفا ر کے آنسؤوں سے انہیں دھو ڈالے اس لیے کہ وہ صاحب اختیا ر ہے ۔
﴿إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا...٥٣﴾... سورة الزمر
اور صاحب حق کی جھولی اپنی رحمت خاص سے بھر کر اسے را ضی کر دے
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں ۔
«في الحديث مشروعية التوبة من جميع الكبائر حتيٰ من قتل الانفس ويحمل علي ان الله تعاليٰ اذا قبل توبة القاتل تكفل برضا خصمه قال الطيبي :اذا رضي عن عبده ارضيٰ خصومه ورد مظالمه» (مرعاة المفاتيح :٣ /٤٦٩)
"اس حدیث میں تمام کبیرہ گناہوں سے حتی کہ کئی اشخاص کے قتل سے بھی تو بہ کی مشروعیت ہے اور یہ اس پر محمول ہے کہ جب اللہ تعا لیٰ قا تل کی تو بہ قبو ل فرما لیتا ہے تو مقتول کی رضا کا وہ خود ضا من بن جا تا ہے ۔"
اما م طیبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ۔جب اللہ اپنے کسی بندے پر راضی ہو جا تا ہے تو اس کے مد مقا بل کو بھی راضی کر کے اس کا حق اپنے پاس سے اسے عنا یت فرما دے گا ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب