السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مختلف مکا تب فکر کے ملا حظے اور مطالعہ اور ایک عرصہ تک ذہنی طور پر گو مگو کی حالت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام کی اصل روح کو صرف" مسلک اہل حدیث"ہی سمجھتا ہے اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان شاءاللہ اسی مسلک کی روشنی میں اپنی گناہ گا ر زندگی کے لیے استفسار کروں گا اور دین حق پر چلنے کے لیے سماجی و مذہبی راہنما ئی حاصل کروں گا اس سلسلہ میں آپ میری راہنمائی فرمائیں ۔مثلاً:
(1)مختلف مسائل خصوصاًوضو نماز نماز جنازہ روزہ وغیرہ کے متعلق کتابوں کی نشاندہی فرمائیں ۔
(2)اہل بدعت کے ہاں جو خرافات موجود ہیں اور ان کے جواز واثبات کے لیے جو تاویلا ت کرتے ہیں ۔ان کے رد کے لیے کو نسی کتا بیں پڑھنی چاہئیں مثلاً:ختم فاتحہ نیاز چہلم قل وغیرہ ۔
(3)قبور پر جا نے کےمتعلق جو احکا مات شرعی ہیں وہ کیا ہیں کیا کبھی والدین کی قبور پر جانا چاہیے کہ نہیں اگر جا نا چاہیے تو کیا کرنا چاہیے ؟ عام قبر ستان سے گزرتے ہو ئے کیا کرناچاہیے ؟
میر ے علم کے مطابق عورتوں کا قبور پر جا نا منع ہے اہل بدعت یہ تاویل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے خاونداور اپنے والد کے روضہ مبارک پر جا تی تھیں ۔اس مسئلہ کے متعلق ارشاد فر مائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔طہارت ووضوء نماز جنازہ اور روزہ وغیرہ کے موضوعات پر علماء کی بےشمار تصانیف موجود ہیں چند ایک کے نام ملاحظہ فرمائیں:تعلیم الصلوٰۃ'' محدث روپڑی۔''پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری دعائیں''مولانا عطاءاللہ بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ ''احکام جنائز'' مولانا محمد عبدہ حفظہ اللہ ''احکام الجنائز '' مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ ''حقیقۃ الصیام'' شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ۔''جنازہ کے احکام ومسائل'' مولانا فضل الرحمٰن صاحب۔''دستور المتقی'' اور '' منتقی الاخبار'' مترجم وغیرہ وغیرہ۔
2۔بدعات کے رد میں بہت ساری کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔اردو بازار لاہور میں اہل توحید کی دوکانوں پر رجوع فرمائیں۔مثلاً
سبحانی اکیڈمی فاروقی کتب خانہ مکتبہ قدوسیہ اسلامی اکیڈمی اور مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ وغیرہ وغیرہ۔اس بارے میں رد بدعات محدث روپڑی کی مشہور ومعروف تالیف ہے۔اور جملہ تصانیف مولانا محمد صادق سیالکوٹی خرید کر اپنی لائبریری کی ضرور زینت بنائیں،بے حد مفید ہیں،تنہا شخص اپنی ذات میں مستقل ادارہ تھا۔جس کی کاوش کو رب العزت نے شرف قبولیت سے نوازا ہے۔جزاہ اللہ عنا خیرا الجزاء
3۔قبروں کی زیارت کرنا مشروع ہے اس سے آخرت یاد آتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔بعض روایات میں موجود ہے کہ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا۔مگر اب زیارت کرو۔کیونکہ اس سے موت یاد آتی ہے۔اور باعث عبرت بھی ہے۔
شریعت میں مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کا چونکہ عمومی اذن موجود ہے اس میں والدین بھی شامل ہیں۔لہذا ان کی قبروں پرجاکر بھی دعا رحمت واستغفار ہونی چاہیے۔بشرط یہ کہ وہ اہل توحید ہوں ورنہ نہیں۔نیز راحج مسلک کے مطابق عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت ہے ۔بشرط یہ کہ وہاں جزع وفزع کا اظہار نہ کریں(اور زیادہ نہ جائیں) چند روایات ملاحظہ فرمائیں:
1۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھی رورہی تھی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اتقی اللہ واصبری»(1)(بخاری ومسلم )
"اللہ سے ڈرااور صبر کر ۔''
وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عورت کو قبر پربیٹھنے سے نہ روکنا جواز کی دلیل ہے۔(بخاری ومسلم)
2۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جب میں قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں؟فرمایا پڑھ:
«السلام و عليكم اهل الديار من المومنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين وانا ان شاء الله بكم لاحقون»(2)
(مسلم و نسائی )
3۔عبد اللہ بن ابی ملکیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آمد قبرستان کی طرف ہوئی،میں نے دریافت کیا:کہاں سے آئی ہو؟کہا: میں اپنے بھائی ابن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر سے آئی ہوں،کہا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا؟کہا:پہلے کیا تھا،بعد میں اجازت دے دی تھی۔(3) حاکم نے روایت ھذا پر سکوت کیاہے۔اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے اور حافظ عراقی نے ازس کی سند کو جید کہا ہے۔(تخریج احیاء علوم الدین 4/521)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خاوند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور والد گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے گھر ہی میں مدفون ہیں جو ہر وقت کا مشاہدہ تھا آمدورفت کا کوئی مسئلہ نہیں۔مسئلہ ہذا پر''الاعتصام'' میں تفصیلی گفتگو پہلے بھی شائع ہوچکی ہے۔
1۔صحیح البخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور (12839 صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی الصبر علی المصیبة (2140)
2۔صحيح مسلم كتاب الجنائز باب ما يقال عند دخول القبور (٩٧٥)
3۔الحاكم (١/٣٧٦) (١٣٩٢) المشكاة (١٧١٨)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب