السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبروں پر ہاتھ اٹھا کر دعاکرنا کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعاکرنا جائز ہے۔چنانچہ مسند ا حمد وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ر ات کے وقت بقیع میں تشریف لے گئے وہاں جا کر کھڑے ہوگئےپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے(اور دعا کی) پھر واپس چلے آئے۔(موطا للامام مالك كتاب الجنائز جامع الجنائز حديث الباب (٥٥) احمد (٦/٩٢) شاكر وصححه
نیز صحیح مسلم اور مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک دوسرے قصے میں مروی ہے ۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل بقیع کے پاس تشریف لے گئے اور وہاں تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کردعا کی۔( صحيح مسلم كتاب الجنائز باب ما يقال عند دخول القبور(٢٢٥٥) (٢٢٥٦)لیکن داعی بوقت دعا قبروں کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ قبلہ رو کھڑے ہوکر دعا کرے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی طرف متوجہ ہوکرنمازسے منع فرمایا ہے۔(صحيح مسلم كتاب الجنائز باب النهي عن الجلوس (٢٢٥0)اور دعا ہی نماز کا لب لباب ہے۔لہذا د عا بھی قبلہ رخ ہوکر ہی کی جائے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''یہ دعا ہے کہ دعا کرنے و الے کے لئے اس جانب متوجہ ہونا مستحب ہے۔ جس جانب کے وہ نماز میں متوجہ ہوتا ہے۔''
(اقتضاء الصراط المستقیم ص175)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' دعا کے وقت قبلہ کی جانب متوجہ ہونا ضروری ہے۔خواہ دعا کرنے والا''روضۃ الرسول'' کے جوار میں کیوں نہ ہو''یہی مسلک ائمہ شوافع کا بھی ہے جس طرح کہ ''شرح المہذب'' نووی میں ہے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔جس کی تصریح ''القاعدۃ الجلیلۃ'' میں موجود ہے۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر سلام کے وقت بھی توجہ الی القبلہ ضروری قرار دیتے ہیں۔جیسا کہ دعا میں ضروری ہے البتہ عام حالات میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں قبلہ رخ اور غیر غیر قبلہ رخ دونوں طرح دعا کو جائز قرار دیا ہے۔(صحيح البخاري كتاب الدعوات باب الدعاء غير مستقبل القبلة (٦٣٤٢)چنانچہ فرماتے ہیں:'' باب الدعاء غير مستقبل القبلة'' خطبہ جمعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا :''اللهم حوالينا ولا علينا ''(ايضا كتاب الجمعة باب الاستسقاء وفي الخطبة يوم الجمعة (٩٣٣) سے ان کا استدلال ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:«ووجه اخذه من الترجمة من جهة ان الخطيب من شانه ان يستدبر القبلة وانه لم ينقل انه صلي الله عليه وسلم لما دعا في المرتين استدار وقد تقدم في الاستسقاء من طريق اسحاق بن ابي طلحة عن انس في هذه القصة في آخره ’’ولم يزكر انه حول ردائه ولا استقبل القبلة» ’’(فتح الباری11/143)
اور دوسری تبویب یوں ہے کہ'' باب الدعاءمستقبل القبلة'' (باب الدعاءمستقبل القبلة (٦٣٤٣) پھر''حدیث الاستسقاء'' کے الفاظ سے استدلال ہے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«فاشار كعادته الي ما ورد في بعض الحديث وقد مضيٰ في الاستسقاء من هذا الوجه بلفظ :وانه لما اراد ان يدعو استقبل القبلة وحول رداءه»
اس بارے میں متعدد حدیث وارد ہیں۔جن میں قبلہ رخ کا تعین ہے صاحب'' فتح الباری'' نے ان کی نشاندہی کی ہے۔پھر بحث کے اختتام پر فرماتے ہیں:ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ زی النجادین کی قبر پردیکھا۔اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:
«فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه» (اخرجه ابو عوانة في صحيحه)
یعنی ''جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ زی النجادین کے دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رخ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔''
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب