السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جسم ہما رے پاس اللہ تعا لیٰ کی امانت ہے کیا کسی کو خون گردے آنکھ یا جسم کا کو ئی بھی حصہ عطیہ کرنا جا ئز ہے یا نہیں اگر پاس کو ئی مررہا ہو تو کیا اس کو خون دینا چاہیے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بنی نوح انسان کے لیے اپنے جسم میں ایسا تصرف جس سے انسانی زندگی کا ضیا ع لا زم آتا ہو یہ تو قطعاً ممنوع ہے جیسے خود کشی وغیرہ اور اگر اس کی اصلاح کی خاطر آپریشن کے مرا حل سے بھی گزر نا پڑے تو سبھی جواز کے قائل ہیں چاہے بعض زہر آلو د عضووں کو کا ٹ کر ہی اس کی اصلاح کیوں نہ کر نی پڑے بلکہ زندہ کی مصلحت کی خاطر کئی ایک اہل علم مردہ کی چیر پھا ڑ کے بھی قائل ہیں چنانچہ علامہ ابن حزم "المحلی "میں فرماتے ہیں(المحلي (٣/٣٩٥) رقم المسالة (607) اگر حاملہ عورت فوت ہو جا ئے اور اس کے پیٹ میں بچہ حرکت کرتا معلو م ہو جس پر چھ ماہ سے اوپر مدت گزر چکی ہو تو اسے آپریشن کے ذریعہ نکا ل لیا جا ئے قرآن میں ہے جس نے ایک جا ن بچا ئی گو یا اس نے سب لو گو ں کی جا نیں بچا ئیں ۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے(المجموع ،5/301) میں اس قو ل کی تبویب کی ہے اسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اکثر فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے لیکن عمل ہذا کو "کشاف القناع)اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مسائل میں ناجائز قرار دیا ہے لکھتے ہیں :
«سمعت احمد سئل عن المراۃ تموت والولد یتحرك في بطنها ايشق عنها ؟ قال: لا.كسر عظم الميت ككسره حيا» انظر الرقم المسلسل (٤٩١)
یعنی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس حدیث کی روسے پیٹ چاک کر کے بچہ نکا لنے کو حرام قرار دیا ہے ۔علا مہ رشید رضا مصری اس کے حواشی میں رقمطراز ہیں : اس حدیث سے علی الاطلاق ترک جنین پر استدلال جا ئز نہیں ہے کیو نکہ حدیث کا مقصد میت کی لا ش کو بے حرمتی سے بچانا ہے یعنی لا ش کی بے حرمتی کے لیے ہذی وغیرہ توڑنا (مثلہ کرنا )حرا م ہے اور عمل جراحی بے حرمتی کے تحت نہیں آتا اور پھر بعض اوقات وہ بچہ زندہ بھی رہتا ہے لہذا یہ طبی عمل بلا شبہ جائز ہے :"
اسی طرح زندہ آدمی کی مصلحت کے پیش نظرسوال میں مذکورہ اشیاء کی منتقلی کابھی جواز ممکن ہے بشرطیکہ ان سے استفادہ کا ظن غالب ہو سعودی عرب کی ہیئت کبار العلماء (علماء کی سپر یم کو نسل ) نے بھی اکثریت سے مردہ کے اعضاء کی منتقلی کے جواز کا فتویٰ صادرکیا ہے قرار رقم 62تاریخ 25/1398"مجلۃ البحوث الا سلامیہ "عدد 14ص68۔67نص کلما ت کا تر جمہ ملا حظہ فرمائیں :مطالعہ بحث و تمحیص اور باہمی تبادلہ خیالات کے بعد علما ء کے اجلا س میں اکثریت کے ذریعے درج ذیل فتویٰ طے پایا :
(1)کسی انسان کی موت کا تعین ہو جا نے کے بعد اس کی آنکھ کے ڈھیلے کو منتقل کرکے کسی ایسے مسلما ن کی آنکھ میں پیوند کرنا جائز ہے جو مجبور ہوا ور پیوند کاری کے آپریشن کی کامیابی کے بارے میں ظن غالب ہو بشرطیکہ میت کے ورثاء کو اس پر کو ئی اعتراض نہ ہو اس کی اجازت اس قاعدے کی روسے ہے جس میں دومصلحتوں میں سے بہترین مصلحت کے حصول کو مد نظر رکھنے دو مضرت رساں چیزوں میں سے کمتر ضر والی کو اختیار کر کے اور زندہ انسان کی مصلحت کو مردہ شخص کی مصلحت پر مقدم کرنے کا تحقیق پایا جاتا ہے کیو نکہ اس عمل میں یہ امید پائی جا تی ہے کہ زندہ شخص میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جا ئے گی جب کہ پہلے اس میں یہ صلاحیت مفقود تھی اس سے نہ صرف یہ کہ وہ شخص خود استفادہ کر سکے گا بلکہ اس میں پوری امت کو فائدہ پہنچنے کا امکان موجودہے اور جس مردہ شخص سے یہ آنکھ لی گئی ہواس کے (بدن) میں کو ئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی کیو نکہ اس کی آنکھ کو با لآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہوکر بر باد ہو جا نا ہے اور آنکھ کو منتقل کرنے کے عمل میں بظاہر کو ئی مثلہ (قطع وبرد)بھی نہیں پایا جا تا کیونکہ اس کی آنکھ بند ہو چکی ہے اور اس کے دونوں پپوٹے اوپر تلے مل گئے ہیں ۔
(2)جس انسان کی آنکھ کے با رے میں طبی رپورٹ کی روسے یہ طے کیا گیا ہو کہ اس کا باقی رکھنا خطرے کا باعث ہے تو ایسی آنکھ کے صحیح و سالم ڈھیلے کا انتقا ل اور اسے کسی دیگر مجبور انسان کی آنکھ میں پیوند کرنا ناجائز ہے کیو نکہ دراصل اس آنکھ کو اس سے نکالا گیا ہے تا کہ اس آنکھ والے شخص کی صحت کی حفاظت کی جا سکے چنانچہ ایسے ڈھیلے کو منتقل کرنا اور کسی دیگر شخص کی مصلحت کی خاطر اس کی آنکھ میں پیوند کرنا مذکور شخص کے لیے قطعاً نقصان دہ نہیں چنانچہ شریعت اور انسانیت اسی بات کی متقاضی ہے اللہ تعا لیٰ توفیق دینے والا ہے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد صلی اللہ علیه وسلم وآله وصحبه وسلم
(نامور علما ء کمیٹی ،بورڈ آف دی گر یٹ سکالرز)
آنکھ پر دیگر انسانی اعضاء کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے نیز خون وغیرہ دینے کا معاملہ نسبتاًسہل ہے لہذا یہ بطریق اولیٰ جائز ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب