السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1)کیا دوکانداری میں جھوٹ بول کر سودا گاہک کو فروخت کرناجائز ہے ؟
(2)اگر دوکان پر گاہک ہوتو نہ تو نماز پڑھ سکیں اور نہ کھانا کھاسکیں جب تک بالکل دوکانداری سے فارغ نہ ہوچاہے نماز قضا کرنی پڑے ۔
(3)ملازمین کونماز پڑھنے سے روکنا یاکسی طریقہ سے منع کرنا ۔
(4)اگر کوئی شخص نماز پڑھنے جارہا ہو تو راستے میں گاہک کو لے کر واپس دکان پرآجائے اس کوسودا فروخت کر کے فارغ ہو تب نماز پڑھے ۔
(5)ملازمین کی بے عزتی کرنا اور گاہک کی عزت کرنا ۔
(6)ملازمین سے کیسا سلوک کیا جا ئے ۔
(7)ایک ملازم کو برتر سمجھنا دوسرے کوبد تر سمجھنا ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)۔جھوٹ سے سودا سلف فروخت کرنا سخت منع ہے صحیح حدیث میں وارد ہے :
«ان الصدق يهدي الي البر وان البر يهدي الي الجنة وان الرجل ليصدق حتيٰ يكون صديقا وان الكذب يهدي الي الفجور وان الفجور يهدي الي النار وان الرجل ليكذب حتي يكتب عند الله كذابا»(بخاری مع فتح الباری :10/507)
یعنی"سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت میں پہنچا دیتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ بہت زیادہ سچا بن جاتا ہے اور جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہےاور فسق و فجور جہنم میں لے جاتا ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں بہت زیادہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
(2)۔اذان سنتے ہی کاروبار زندگی معطل کردینا چاہیے قرآن مجید میں مومنوں کے اوصاف میں سے ہے :
﴿رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلوٰةِ وَإيتاءِ الزَّكوٰةِ...٣٧﴾... سورة النور
یعنی (ایسے لوگ جن کواللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے سے نہ سودا گری غافل کرتی ہے نہ خریدو فروخت ۔"
راوی حدیث ابرا ہیم بن میمون الصائغ کے بارے میں امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
(وكان اذا رفع ال مطرقة فيسمع النداء)سنن ابی داؤد:3/242مع عون المعبود)
یعنی "ابراہیم جب ہتھوڑا اٹھاتا کہ لو ہے پر مارے اسے اذان سنائی دیتی تو فوراً کام چھوڑ کر مسجد میں چلا جاتا ۔
صاحب العون فرماتے ہیں :" ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود اس سے ابراہیم کی تعریف وتوصیف کرنا ہے کہ ان کالوہارا کام اللہ کی یاد سے مانع نہیں تھا بلکہ جب اذان سن لیتے تو ہتھوڑاچھوڑ کرمسجد مین چلے جاتے۔(سنن ابی داؤد :3/242 مع عون المعبود )
(3)۔ملازمین کونماز کی ادائیگی سے روکنا کفار مکہ کی سنت کااحیا ء ہے جو بیت اللہ کی عبادت سے منع کرتے تھے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسـٰجِدَ اللَّهِ أَن يُذكَرَ فيهَا اسمُهُ وَسَعىٰ فى خَرابِها...١١٤﴾... سورة البقرة
یعنی"اور اس سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کاذکر کئے جانے کومنع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔’’
لہذاعاقل انسان کے لائق نہیں ہے کہ اتنے بڑے جرم کاارتکاب کرکے اپنے لیے ذلت و رسوائی کاگڑھا کھودے ۔ونعوذ بالله من شرو ر انفسنا
(4)۔ایسے فعل کے مرتکب کواللہ سے معافی اور استغفار کرناچاہیے فرمان باری تعالیٰ :
﴿استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا ﴿١٠﴾... سورة نوح
"اپنے پروردگار سے معا فی مانگو کہ وہ معاف کرنے والا ہے ۔"
(5)۔ملازمت کرنا نبیوں کی سنت ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود چند سكوں پر اہل مکہ کی بکریاں چراتے رہے ۔لہذا ملازم کو حقیر سمجھنا کمینگی ہے اس کے مرتکب کو تا ئب ہونا چاہیے اور گا ہک سے خوش خلقی سے پیش آنا قا بل تعریف فعل ہے ۔
(6)۔ملازم کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توصیفی کلمات متعدد احادیث میں بیان فرمائےہیں۔ملاحظہ ہو۔ (مشکوۃ)
(7)۔اگر یہ تفاوت خصائل و عادات کے اعتبار سے ہے تواس کاکوئی حرج نہیں بلاوجہ کسی کوبد تر سمجھنا درست بات نہیں بعض روایات میں ہے۔«انزلوا الناس منازلهم»
یعنی "لو گوں سے ان کے مرتبے و مقا م کے اعتبار سے پیش آؤ۔"
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب