السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علما ئے دین کرا م دریں مسئلہ کہ دینی مدرسین دوماہ سالانہ تعطیلات کی تنخواہ کے شرعاًمستحق ہو تے ہیں یانہیں بعض دفعہ مدرس خود بر موقعہ امتحان سالانہ استفاء دے دیتا ہے ادر انتظامیہ کو تنخواہ سے محروم کرنے کا موقعہ مل جا تا ہے اور بعض دفعہ انتظامیہ کی طرف سے مدرسین کو جواب مل جا تا ہے دوسری صورت میں کسی مدرس کوایام رخصت کی تنخواہ مل جاتی ہے اور کسی کومحرومی کاشکار ہونا پڑتا ہے لہذا تفصیل سے روشنی ڈالیں کس صورت میں محروم ہوتا ہے اور کس صورت میں حقدار ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انتظامیہ اور مدرس کوشروع ہی سے اتفاق رائے سے چھٹیوں کی تنخواہ کا مسئلہ طے کر لینا چاہیے چاہے اتفاق ادائیگی پر ہو یا عدم ادائیگی پر بعد میں اسی کے مطابق عمل ہوگا قرآن مجید میں ہے ۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَوفوا بِالعُقودِ...﴿١﴾... سورة المائدة
اگریہ صورت نہ ہو توفیصلہ معروف پر ہوگا بقاعدہ "المعروف کالمنشروط"
اور اگر یہ بھی ناممکن ہوتو مدرس کی حیثیت اجیرخاص کی ہوگی مغنی ابن قدامہ (5/305)پراجیر خاص کی تعریف بایں الفاظ ہے :
«هو الذي يقع العقد عليه في مدة معلومة يستحق المستاجر نفعه في جميعها كرجل الستوجر لخدمة او عمل في بناء او خياطة او رعاية يوما او شهرا سمي خاصا لاختصاس المستاجر بنفعه في تلك المدة دون سائر الناس»
نیز ہدایہ میں ہے :
«والاجير الخاص الذي يستحق الاجرة بتسليم نفسه في المدة وان لم يعمل كمن الستوجر شهر الخدمة او يرعي الغنم وانما سمي اجيرا لانه لا يمكنه ان يعمل لغيره»
صورت ہذا میں مدرسین حضرات تعطیلات کی تنخواہ کے مستحق ہوں گے اسی طرح اثناء سال مدرس کی تدریس اگر کسی وجہ سے موقوف ہوجاتی ہے مثلاً طلباء نہیں ملتے یااسی طرح کاکوئی اور عارضہ پیش آجاتا ہے تو مدرس بدستور رواتب کا مستحق ٹھہرے گا جب تک کہ اتفاق رائے سے اس کے خلاف کو ئی حتمی فیصلہ نہ ہو ۔بدایۃالمجتہدمیں ہے :
«فقال عبد الوهاب :الظاهر من مذهب اصحابنا ان محل استيفاء المنافع لا يتعين في الاجارة وان عين فذالك كالو صف لا ينفسخ ببيعه او ذهابه بخلاف العين المستاجرة اذاس تلفت وذلك مثل ان يستاجر علي رعاية غنم باعيانها او خياطة قميص بعينه فتهلك الغنم ويحترق الثوب فلا ينفسخ العقد وعلي المستاجر ان ياتي بغنم مثلها ليرعاها او قميص مثله ليخيطه»
نیز مدرسین کو چھٹیوں کا حق چونکہ انتظامیہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ مدرسین کو حق سے محروم نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر میں اپنی رفیقہ حیات رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے اس کے باوجود نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
« ان لك اجر ممن شهد بدرا او سهمه» صحيح البخاري كتاب فرض الخمس باب اذا بعث الامام رسولا في حاجته .......(3130)(رواه البخاري)
چو نکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیچھے رہ جا نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی سے تھا اس لیے مال غنیمت سے سہم کے حقدار بنے اسی طرح مدرسین کاعدم حضور بھی انتظامیہ کی رضا سے ہے لہذا وہ بھی حقدار بننے چاہئیں بنابر یں مسئولہ صورتوں کو مذکور ہ بالا صورتوں پر محمول کیا جائے گا ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب