سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(475) محرم کا اپنے بالوں میں کنگھی کرنا صحیح نہیں

  • 1313
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1543

سوال

(475) محرم کا اپنے بالوں میں کنگھی کرنا صحیح نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا محرم کے لیے اپنے بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

محرم کو اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ محرم کا پراگندہ اور غبار آلود ہونا مطلوب ہے۔ غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کنگھی کرنے میں بالوں کے گرنے کا اندیشہ ہے اور اگر قصد وارادے کے بغیر خارش وغیرہ کرنے کی وجہ سے بال گر جائیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس نے قصد وارادے سے بالوں کو نہیں گرایا۔ اسی طرح وہ تمام دیگر امور جو احرام میں ممنوع ہیں، اگر انسان ان کا جان بوجھ کا ارتکاب نہ کرے بلکہ غلطی یا نسیان کی وجہ سے ان کا ارتکاب ہو جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥... سورة الأحزاب

’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘

اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ شکار جو ممنوعات احرام میں سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقتُلُوا الصَّيدَ وَأَنتُم حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُتَعَمِّدًا فَجَزاءٌ مِثلُ ما قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحكُمُ بِهِ ذَوا عَدلٍ مِنكُم...﴿٩٥﴾... سورة المائدة

’’اے مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو) اس کا بدلہ دے اور وہ یہ ہے کہ اسی طرح کا چوپایہ جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کر دیں (قربانی کرے)۔‘‘

اس آیت کریمہ میں ﴿مُتَعَمِّدًا﴾ کی ’’جان بوجھ کر‘‘قید اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ جو شخص قصد وارادے کے بغیر کسی شکار کو مارے، تو اس کے ذمے کوئی بدلہ نہیں ہے۔ یہ قید احترازی ہے کیونکہ یہ حکم کے لیے مناسبت سے یہی بات موزوں ہے لہذاجو جان بوجھ کر شکار کو مارے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس پر بدلہ واجب ہو اور جو جان بوجھ کر شکار نہ مارے، اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس پر بدلہ واجب نہ ہو کیونکہ دین اسلام سہولت اور آسانی کا دین ہے، لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی استثناء کے بغیر وہ تمام امور جو محرم کے لیے ممنوع  ہیں اگر جہالت یا نسیان کی وجہ سے ان کا ارتکاب کیا جائے تو اس سے فدیہ واجب ہوتا ہے نہ عمرہ یا حج فاسد ہوتا ہے، جس طرح کہ جماع وغیرہ سے فاسد ہو جاتا ہے، مذکورہ بالا ادلہ شرعیہ کا یہی تقاضا ہے جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ421

محدث فتویٰ

تبصرے