السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گذارش ہے کہ مروجہ ہڑتال احتجاجاًکاروبار اور تجارتی مراکز بند رکھنا جلوس نکالنا سڑکوں پر پتلے اور ٹائز جلانے کی کتاب وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے ؟
٭بعض علماء اس مذکورہ احتجاج کوصحیح اور جائز کہتے ہیں دلیل کے طور پر بیعت رضوان اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااحتجاج قرار دیتے ہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مروجہ نظام حکومت چونکہ استعماری قوتوں کی پیداوار ہےاس کے کارہائے نمایاں میں سے یہ ہے کہ مطالبات تسلیم کرانے کے لیے درج بالاچیزیں ضروری اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں اس کے بغیر ان کے زعم کے مطابق نعرہ جمہوریت نامکمل اور ناتمام ہےاس کے بر عکس اسلام ایسی لاقانونیت کاقطعاًحامی نہیں اس کی سنہری تعلیمات میں سے ہے :
﴿لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة
"یعنی تم کسی کو نقصان نہ دو اور نہ دوسرا کو ئی تم کو نقصان پہنچائے ۔"
مقصد یہ ہے کہ پیمانہ عدل و انصاف تھا مے رکھو ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿ اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ...﴿٨﴾... سورة المائدة
"انصاف کیاکرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے ۔
ظاہر ہے جہاں عدل کاترازو قائم ہوگا وہاں ایسے احتجاجات اور واویلے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ حکمران یتیموں بیواؤں اور بے بس مظلوموں کے پہلو میں کھڑے اور ان کے دروازوں پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے یقین نہ آئے توعمرین (عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ )کے مثالی نظام حکومت کا مطالعہ کیجیے یہ جھلک آپ کو بڑی واضح نظر آئے گی ۔قصہ بیعۃ الرضوان "سے مروجہ طریق احتجاج پراستدلال کرنا جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے نعوذباللہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس بیعت کےانعقاد سے کافروں سے احتجاج کیاتھا ؟جوعقلاً نقلاًغیر معقول اور آپ کی شان سے بہت فروتر ہے یہ بیعت تواس عہد وفاداری کی تجدید تھی جوبندوں نے اپنے اللہ سے کر رکھا تھا اس کا مخلوق کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں مقام غورو فکر ہے کہ اس سے مروجہ طریق احتجاج کاجواز کیسے نکل آیا؟
اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے امور کاارتکاب دراصل خواہشات کے پجاریوں کی سنن کااحیاء ہے اور یہ وہاں ہوگا جہاں عدل وانصاف کی بجائے ظلم و ستم کا دور دورہ ہوگا اللہ رب العزت ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی تو فیق بخشے ۔آمین!
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب