السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت شرعاً گاڑی چلا سکتی ہے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
"اللہ تعا لیٰ کا ئنا ت کے علیم بذات الصدور "نے اولاد آدم میں سے مرد اور عورت کا دائرہ کار عملی زندگی میں علیحدہ علیحدہ متعین کر رکھا ہے مرد کو جفا کش بنایا تا کہ بیرونی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہو سکے اور صنف نازک کو اس کی اپنی حیثیت سے ذمے داریاں سونپی ہیں یہ ایک ایسا شعور ہے جس کا احساس غیر جنس بنی آدم میں بھی دریعت کیا گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ کوئی آدمی بیل کی پیٹھ پر سوار ہو کر جارہا تھا بیل نے بزبان قال کہا:
«انا لم نخلق لهذا انما خلقنا لحرا ثة الارض» بحواله بخاري ومسلم)
یعنی "ہما ری تخلیق کا مقصد سواری کرنا نہیں ہمیں تو صرف کھیتی باڑی کے لیے بنایا گیا ہے ۔"بنی نوع انسان کواعلیٰ جنس اور اشرف المخلوقات ہونے کے نا طے بطریق اولیٰ یہ احساس و ادراک ہونا چاہیے اسلام میں مرد وزن کی ذمہ داریوں میں اس حدتک احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ راہ چلتے اختلاط کو بھی ناپسند فر مایا ۔
صحابیات دنیا کی سب سے پاکدامن عورتوں کو بصورت خطاب حکم دیا گیا ہے کہ عام گزر گاہوں سے علیحدہ ہوکر چلیں انہوں نے اس کا عملی نمونہ یوں پیش کیا کہ وہ درودیوار کے ساتھ چمٹ چمٹ کر چلتی تھیں نیز بعض روایات میں عورتوں کو جنا زہ اٹھا کر چلنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے "شرح المہذب "میں اس کی توجیہ یوں کی ہے ۔"یہ حالت مردوں کے ساتھ اختلاط کو مستلزم ہے جو فتنے کا سبب بن سکتی تھی اس لیے منع کردیا گیا ۔(فتح الباری :3/182)
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج حیات ہوتے تو عورتوں کو فتنے کے ڈر سے مساجد میں جا نے سے منع کر دیتے جس طرح کہ نبی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اپنی زندگی میں روکا نہیں اس لیے عورتوں کا مسجدوں میں جا ناجائز ہے )اسی اثر کو بنیاد بنا کر حنفیہ عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکتے ہیں ۔مفتی محمد حسین نعیمی صاحب !ذراتائل فرمائیے !جس مذہب میں عورت کو عبادت خانہ جانے تک کوزیادہ پسند نہ کیا گیا ہو وہاں صنف نازک کو گاڑی یاکار چلانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے ؟
بہر حال حالات و واقعات شاہد ہیں عورت کو گاڑی کار وغیرہ چلانے کی اجازت کی شکل میں تمام تحفظات کو خیر باد کہنا پڑے گا جس سے عورت کی کرا مت ومقام اور عزت و وقار مجروح ہوگا جبکہ اسلامی تعلیمات کااہم جز ہے کہ عورت کو عورت بنا کررکھو گاڑی ایک متحرک مشینری ہے جب تک انسانی فعل کواس میں دخل نہ ہو وہ کسی کام کی نہیں بے کار ہے اس کو دھچکا لگانے کی ضرورت پڑسکتی ہے انجن خراب ہوسکتا ہے ٹائر پنکچرہو سکتا ہے معمولی سے نقص کودور کرنے کے لئے بذات خود گاڑ ی کے نیچے لیٹنے کی نوبت بھی پیش آسکتی ہے گاڑی کوآگے پیچھے کرنے کے لیے ۔«فلا تخضعن بالقول»کی مخاطبہ کو مردوں سے واسطہ بھی پڑسکتا ہے پھر نقائص کی اصلاح کے لیے کاریگروں سے تعلق امر لابدی ہے ایسی ضرورت حضر کے علاوہ سفر میں بھی پیش آسکتی ہے ۔
نیز گاڑی چلانے کے لیے آزادانہ نگاہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ایک روایت میں حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نابیناکی موجودگی میں بعض ازواج مطہرات نے پردہ سے تساہل برتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انذارکے انداز میں فرمایا :کیا تم بھی نابینی ہو؟
الحاصل علی رغم انوف متاثرین اور مقلدین مغرب واستعمار اسلام میں عورت کو قطعاً گاڑی چلانے کی اجازت نہیں مذکورہ دلائل و براہین کی روشنی میں بلا تردو کہا جاسکتا ہے کہ مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز حفظ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ عدم جواز مبنی بر حق وصواب ہے جب کہ مفتی نعیمی کا فتوی جواز محل نظر اور غیردرست ہے یاد رہے یہ دونوں فتویٰ روز نامہ "جنگ"لاہور کی قریبی اشاعتوں ماہ نومبر 1990ءمیں شائع ہوچکے ہیں ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب