السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرض ہے کہ عموماً لو گ سرکاری ملازمین کے "جی پی فنڈ"سے سود کی رقم کے مصرف کا پوچھتے رہتے ہیں اور مناسب جواب سے مستفید ہو تے ہیں سرکاری جی پی فنڈ کے سلسلے میں ممکن ہے کہ قوانین پوری طرح یاد نہ ہو ں تو عرض ہے کہ ہما ری حکومت ملا زمین کی تنخواہ میں سے چند فی صد کے حساب سے جی پی فنڈ جبراً کاٹتی ہے اور اس پر سود بھی دیتی ہے مگر سود جبراًنہیں جوملا زم سود نہ لینا چاہے درخواست دے کر بغیر سود کے اپنا حساب رکھوا سکتا ہے اور اگر پہلے سود کچھ عرصہ لگتا رہاہوتووہ جب چاہے پچھلا سارے کاسارا سود اپنے جمع شدہ جی پی فنڈ سے منہاکرواسکتا ہے اور آئندہ بغیر سود کے جمع ہوتا رہتا ہے اسی اپنے جی پی فنڈ کی رقم میں سے ملازم بطور قرض بھی رقم لےسکتا ہے اوروہ رقم ماہا نہ اقساط میں اس کی تنخواہ سے کٹ کر ملازم کے ہی اکاؤنٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے اور جس کافنڈ سود کےساتھ جمع ہورہاہواس تو متذکرہ قرض پر بھی سود لگا کراسی کے کھا تے میں جمع ہوجاتا ہے اور جس کافنڈ بغیر سود کے جمع ہورہاہو اس قرض پر سود نہیں لگایا جاتا ملازمت کے آخری لمحات میں جب کہ جی پی فنڈ کی رقم فائنل وصول کرنی ہوتو بھی وہ درخواست دے کر سود کی رقم منہا کروا سکتا ہے وہ کاغذات میں ہی حکومت کے کھا تے میں چلی جا ئے گی کو ئی اہل کا ر اس سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
اب قرآن میں توصاف طور پر سود کی رقم چھوڑ دینے کاحکم ہے ظاہر ہے کہ سود کی رقم اسی کے پا س جا ئے گی یارہے گی جس سے رقم لی چونکہ سودی رقم کا وصول کر نا حرام ہے اس لیے اسے وصول کر کے خواہ مخواہ ذمہ داری (خرچ کرنے کی) کیوں لی جا ئے حرمت تو وصولی کی ہے کہ جس ادارے سے جی پی فنڈ کی رقم وصول رہاہے اگر اسی کورقم چھوڑ سکتا یاواپس کرسکتا ہے تو پھر دانستہ وصول کرکے قصور وار تصور ہوگا ہاں البتہ نادانستہ یاکم علمی کی وجہ سے سودی رقم وصول ہوچکی ہوتو پھر اس کا حل وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آپ نے مشورہ دیا معذرت خواہ ہوں صرف "جی پی فنڈ"کی قانونی حیثیت کی یاد دہانی کے لیے سمع خراشی کی جرات کی ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محترم ڈاکٹر صاحب !عرض ہے کہ میری معلومات کےمطابق جس رقم پر حکومتی کھا تے میں سود لگ جا ئے اس کا اندراج باقاعدہ کھاتے میں ہوتا رہتا ہے کو ئی وصول کرے یانہ کرے بعض دفعہ ذمہ وارحضرات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے سود نہیں لگایا حالانکہ سود ساتھ لگاہوتا ہے جس کا مالک بننے کے لیے کو ئی بھی تیار نہیں نتیجتاًپھر یہ سود لوٹ کر حکو مت کے خزانے میں جمع ہوجاتا ہے جس کا جواز حکومت کے لیے بھی کسی صورت نہیں بایں صورت حکومت دہرے جرم کاارتکاب کرتی ہے ایک اصل رقم پر سود لگانا اور پھر وہ کسی حیلے بہانے سے قوم کے پیٹ میں ڈالنا یہ شدید ترین جرم ہے اور یہ بھی ممکن ہےکہ حرام رقم کے ذریعے حکومت حرام در حرام کمائے بلکہ ایسے ہی ہے توپھر کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ حرام کی رقم وصول کر کے اسے دے دی جا ئے جس نے سود کا پیسہ دینا ہواس ظلم کی چٹی ہے تا کہ حرام سے جا ن چھڑا سکے لیکن عملاًرضاو رغبت کے ساتھ سودی پیسے کے حصول کی سعی کرنا واقعتاً جرم ہے بلا شبہ اس سے احتراز ضروری ہے جبکہ جی پی کٹوتی اس کے دائرہ اختیار سے خارج ہے اس وقت صرف اس کے مصرف کی نشاندہی کرنا مقصود ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب