السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکا اپنے قصبہ سے برائے شادی شہر میں وارد ہوتا ہے مع ایک عدد لوہے کی چھڑی کے۔اس چھڑی(لوہے) کے ساتھ نکاح ہوجاتا ہے۔حاضرین میں کسی نے اعتراض نہیں کیا جب کہ کہا جاتا ہے کہ یہ چھڑی دافع بلیات ہے۔حالانکہ یہ دقیانوسی خیالات والے مسلمان اکثر ایسا کرتے ہیں۔معلوم یہ کرناہے کہ چھڑی کی موجودگی نکاح میں خلل انداز تو نہیں ہوتی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بوقت نکاح دولہے کا گانہ سہرا باندھنا اور ہاتھ میں لوہے کی چھڑی لے کر چلنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ یہ سب امور بدعیہ ہندوانہ رسوم وآثار سے ہیں۔جن سے اجتناب ضروری ہے حدیث میں ہے:
«من تشبه بقوم فهو منهم» حسنه وصححه الباني صحيح ابي دائود كتاب اللباس باب في لبس الشهرة (٤-٣١)الارواء (١٢٦٩)المشكاة (٤٣٤٧)
یعنی'' جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان سے ہے۔''
بلاریب یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کہ جنس اور وصف میں اشتراک کی خاص کشش ہوتی ہے جس کا اثر انسانی طبائع پر لازمی طور پر ہوتا ہے چاہے دانستہ ہو یا غیر دانستہ۔اسی بناء پر ہمیں غیر اقوام کی نقالی سے منع کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے امراء اور سپہ سالاروں کو ہمیشہ ہدایات تحریر فرماتے تھے:
’’ ارتدوا واتزروا وزيوا بزي العرب الاول ’’
یعنی ''چدر پہنو تبہ بند باندھو اور عرب اول کی وضح اختیار کرو۔''
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو(فتاویٰ اہل حدیث :3/338۔334) شیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ )
خیر بایں ہمہ نکاح تو منعقد ہوجاتا ہے لیکن اس میں خلل واقع ہوجاتا ہے جس سے تائب ہوناضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب