ہمارے علا قہ میں جب کو ئی مو ت واقع ہو تی ہے تو غریب یا متوسط طبقہ سے ہو کفنی پر شہادتیں لکھ کر میت کے سینہ پر رکھ کر دفن کرتے ہیں پھر اسقاط کے نا م پر کچھ رقم بعض علا قوں میں تو شہ کے نا م سے غلہ نمک چھو ہا رے وغیرہ قبر پر لو گو ں میں تقسیم کرتے ہیں اچھی گزر ان والے لو گ حفا ظ قبر پر چند دن بٹھا تے ہیں اور میت کے ورثا ء ایک کا پی رکھ دیتے ہیں آنے والے لو گ اپنا نا م لکھا کر حسب تو فیق 20،10یا زیادہ روپے دے کر جا تے ہیں اسی دن یا دوسرے دن قبر پر روشنی آگ یا لا لٹین جلا کر 40دن رکھتے ہیں پھر ختم قرآن کا سلسلہ ہر جمعرات سے جا ری ہو کر کو ئی پکے چا لیس کو ئی کچے یعنی جس دن جمعرات ہو چا لیسواں کرتے ہیں ان تمام امو ر میں ہم رکا وٹ ڈالتے ہیں مگر اکثریت پر اثر نہیں ہو تا کیا ان کامو ں سے رو کنے کے با و جو د جو نہ رکے یا اگر میت کا ہفتہ وار ختم ہواور دعوت اس طرح ہو کہ آپ میت کے گھر دعوت ۔کھا ئیں گے اس صورت میں بغیر ختم پڑھے گا ؤں کے رواج کے مطابق وہ کھا نا جا ئز ہے یا نہیں ؟
سوال میں مذکو ر امو ر بعض وجو ہا ت کی بنا ء پر بنا ء پر نا جا ئز ہیں ۔
(1)عہد نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحا بہ رضوان اللہ عنھم اجمعین و تا بعین و تا تبع تا بعین میں ان کا کو ئی نا م و نشا ن نہ تھا اگر اس طریق سے گنا ہ معاف ہو تے تو کیا ان گناہ کی معا فی کی ضرورت نہ تھی ؟یا وہ میت کے خیر خواہ نہ تھے ؟یا ان کو نیک کا مو ں کا شو ق نہ تھا ؟ جب یہ سب با تیں تھیں بلکہ ہم سے بڑھ کر وہ ایسی با تو ں کا خیا ل رکھتے تھے تو پھر کیا وجہ ہے خیر القرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا ؟ اس سے صاف معلو م ہو تا ہے اسقا ط سے میت کے گناہ معا ف نہیں ہو تے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ما تے ہیں :
یعنی"جو مجھ پر جھوٹ بو لے وہ اپنا ٹھکا نہ آگ میں بنا ئے ۔"
اور ایک روا یت میں ہے کہ ایسا شخص لعنتی ہے ۔(3) بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہر نیا کام دین میں مردود ہے۔خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔پس اسقاط کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو خیر القرون سے اس کا ثبوت دیں یا اللہ سے ڈریں اور ایسے کاموں سے باز آجائیں جو بجائے ثواب کے اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔(ماخوذ از ر سالہ رد بدعات شیخنا محدث روپڑی)
ایسی مجالس میں شرکت سے ہر صورت احتراز کرنا چاہیے۔قرآن میں ہے:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ (النساء :140)
'' اور اللہ نے تم مومنوں پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں ) سنو کہ اللہ کی آیتوں سےانکار ہورہاہے۔اور ان کی ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔تو جب وہ لوگ اور باتیں (نہ ) کرنے لگیں ان کے پا مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤگے۔''
1۔ صحیح البخاري كتاب العلم باب اثم من كذب .....(106الي110) صحيح مسلم فی المقدمة باب تغلیظ الکذب .....(2الی 5)
2۔ صحيح البخاري كتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود (٢٦٩٧)
3۔ صحیح البخاری کتاب فضائل المدینة باب حرم المدينة(1867.187)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب