السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دے،تو کیا چھ مہینے کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!ایک مجلس کی تین طلاقوں کو نبی کریم کے زمانے میں ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں۔ « کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺوَأَبِیْ بَکْرٍ ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَة»(مسلم:1472)’’رسول اللہﷺکے زمانہ میں ابوبکر اور عمر کی خلافت کے پہلے دو سالوں تک تین مرتبہ طلاق کہنے سے ایک طلاق واقع ہوتی تھی‘‘ اس لحاظ سے آپ کی ایک طلاق واقع ہوئی ہے ۔لیکن چونکہ عدت کی مدت گزر چکی لہذا اب رجوع نہیں ہو سکتا ۔ہاں البتہ اب نکاح جدید ہو سکتا ہے۔آپ نیا نکاح کر کے اپنی بیوی کو اپنے گھر لا سکتے ہیں۔لیکن اس نئے نکاح کے باوجود آپ کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہ جاتا ہے۔جو استعمال کر لینے کے بعد آ پ کا طلاق کا حق ختم ہو جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ وَبُعولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فى ذٰلِكَ إِن أَرادوا إِصلـٰحًا...٢٢٨﴾... سورة البقرة
’’اور خاوند ان کے زیادہ حقدار ہیں ساتھ پھیر لینے ان کے کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کرنا‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزوٰجَهُنَّ إِذا تَرٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة
’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے‘‘ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |