السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(1) میت کو قبر میں دفن کر نے کے بعد قبر پر اذان دینا کیسا ہے ؟ٹو بہ ٹیک سنگھ میں قبر پر اذان دی گئی جو کہ با عث نزاع بنی ہو ئی ہے اور قبر پر اذان دینے کے جوا ز میں ۔"مشکو ۃالمصابیح"کی حدیث پیش کی جا تی ہے :
«عن جابر رضي الله عنه قال :خرجنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم الي سعد بن معاذ رضي الله عنه حين توفي فلما صلي عليه رسو ل الله صلي الله عليه وسلم ووضع في قبره وسوي عليه سبح رسول الله صلي الله عليه وسلم فسبحنا طويلا ثم كبر فكبرنا فقيل :يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ! لم سبحت ثم كبرت ؟ قال: لقد تضايق علي هذا العبد الصالح قبره حتي فرجه الله عنه »(قال الالباني اسناده ضعيف المشكاة (١٣٥) احمد (٣٦-) ح (١٤٨0٩)
(رواه احمد مشكواة المصابيح باب اثبات عذاب القبر الفصل الثالث ص ٢٦)
(2)کیا شیطا ن (ابلیس ) قبر میں میت کے پا س آتا ہے یا نہیں ؟
(3)کیا شیطا ن قبر میں سوال و جوا ب کے وقت میت کو گمرا ہ کر نے کی کو شش کرتا ہے ؟قبر پر اذان دینے سے شیطا ن بھا گ جا تا ہے اور میت کو جوا ب دینے میں آسا نی ہو جا تی ہے یہ دلیل بھی پیش کر تے ہیں ۔
محمد فیض احمد صا حب اویسی مصنف کتا ب "اذان بر قبر" اویسیہ رضو یہ ملتا ن روڈ بہا و لپو ر مصنف نے قبر پر اذان دینے کو ثا بت کر نے کی پوری کو شش کی ہے ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1)قبر پر اذان دینا بدعت ہے کتا ب و سنت اور سلف صالحین کے عمل سے اس کا کو ئی ثبو ت نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے ۔
«من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد» صحيح البخاري كتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود (٢٦٩٧) (بخا ری و مسلم)
"یعنی جس نے ہما رے دین میں اضا فہ کیا وہ مردود ہے ۔"
اور سوال۔ میں ذکر کر دہ حدیث زیر بحث مسئلہ قطعاً کو ئی تعلق نہیں ہے اس سے مستدل کا قبر پر اذان دینے کے جوا ز پر استدا لا ل کر نا اس کی جہالت اور لا علمی کا مظہر ہے اس میں تو صحا بی رضوان اللہ عنھم اجمعین جلیل پر قبر تنگ ہو نے کی بنا ء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محض تسبیح و تکبیر میں سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنے کا ذکر ہے اس کے سبب اللہ رب العزت نے اس کی قبر کو فراخ کر دیا تھا پھر یہ کہاں ہے کہ مسنون و مشروع اذان بھی اس مو قعہ پر کہی گئی ۔
﴿قُل هاتوا بُرهـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١١١﴾... سورة البقرة
(2)حدیث ہذا "مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ "کے علا وہ "طبرا نی کبیر "
المعجم الكبير ٦/١٣(٥٣٤٦) للطبراني فيه ضعف مجمع الزوائد (٣/٤٦) وقال وفيه محمود بن محمد بن عبدالرحمٰن بن عمرو بن الجموح قال الحسيني فيه نظر ولم اجد من زكر غيره
میں بھی مو جو د ہے لیکن متکلم فیہ ہے چنانچہ صاحب "مجمع الزوائد"فر ماتے ہیں ۔
«وفيه محمود بن محمد بن عبدالرحمٰن بن عمرو بن الجموح قال الحسيني فيه نظر»
(3)اس کے بعد والے جملہ سوالوں کا جوا ب یہ ہے کہ مو ت کے بعد والا گھر دار الجزاء ہے دارالعمل نہین ہے کہ شیطان کا آدمی کو ورغلانے یا غلبے کا مو قعہ میسر آسکے ۔شیطا نی بھا گ دوڑ صرف دنیا تک محدود ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
«ان الشيطان قال: وعزتك يا رب لا ابرح اغوي عبادك ما دامت ارواحهم في اجسادهم فقال الرب عزوجل :وعزتي وجلالي وارتفاع مكاني لا ازال اغفرلهم ما استغفروني» صححه محقق مسند الامام احمد ّاحمد(٣/٤١)(١١٣.٧) بتحقيق الحمزة يونس حدثنا ليث عن يذيد يعني ابن الهاد عن عمرو بن ابي سعيد ...الخ واسناده صحيح المشكاة (٢٣٤٤) والتحقيق الثاني للباني علي المشكاة (٢٢٨٣) وقال : حسن بمجموع الطريقين الصحيحة (104)
(رواہ احمد بحوالہ مشکواۃ باب الاستغفار والتوبة)
"تحقیق شیطان نے پروردگا ر سے عرض کیا اے میرے پروردگا ر !تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرتا رہوں گا جب تک کہ ان کے ارواح ان کے بدنوں میں ہو ں گے پس پروردگا ر نے فر ما یا مجھے اپنی بزرگی و عزت اور بلند مرتبہ کی قسم ہے کہ میں ان کو ہمیشہ بخشتارہوں گا جب تک کہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے۔
لہذا بعد از مو ت شیطا نی تسلط یا بذریعہ اذان اس کو اس مو قعہ پر بھگا نے کا نظر یہ با لکل فضول اور بے کا ر ہے تا ر عنکبو ت سے زیا دہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
﴿وَاللَّـهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٤٦﴾... سورة النور
واضح ہو کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے شیوہ ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ نظریات وعقائد کی ترویج کے لیے کتا ب وسنت کی قطع برید میں لگے رہتے ہیں شاید کہ ڈو بتے کو تنکے کا سہا را مل جا ئے دراصل فعل ہذا دین و دنیا کے اعتبار سے انتہا ئی خطرنا ک کھیل ہے ۔
﴿أُولـٰئِكَ الَّذينَ اشتَرَوُا الضَّلـٰلَةَ بِالهُدىٰ فَما رَبِحَت تِجـٰرَتُهُم وَما كانوا مُهتَدينَ ﴿١٦﴾... سورة البقرة
اللہ رب العزت جملہ مسلما نوں کو رجو ع الی الحق کی تو فیق بخشے آمین !
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب