السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
22رجب کو بعض لو گ کو نڈے دیتے ہیں یہ کب اور کس تا ر یخ سے ایجا د ہو ئے اس کی اصل کیا ہے نیز ان کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
22رجب کے کو نڈوں کے سلسلے میں ایک جعلی فر ضی اور بے بنیاد حکا یت بیان کی جا تی ہے جس کو منشی جمیل احمد نے اپنے منظوم کلا م میں بڑے مزے لے کر بیان کیا ہے کہ مدینہ میں ایک لکڑہا رے کو فقرو فا قہ ۔نے آگھیر ا۔ اور وہ گھر با ر کو خیر با د کہہ کر مارے مصیبت کے بارہ سال تک دردر کی ٹھو کر یں کھا تا رہا ۔دوسری طرف اس کی بیوی نے مدینے میں ایک وزیر کے محل میں ملا زمت اختیا ر کر لی ایک روز یہاں محل کے سامنے سے حضرت جعفر صا دق کا اپنے مصا حبوں کے ہمرا ہ گزر ہوا ۔ اس وقت یہ عورت جھا ڑو دے رہی تھی دریا فت فر ماتے ہیں آج کو نسی تا ر یخ ہے عرض کیا جا تا ہے کہ رجب کی با ئیسویں تا ریخ ہے فرما یا اگر کسی حا جت مند کی حا جت پو ری نہ ہو تی ہو مشکل میں پھنسا ہوا ہو مشکل کشا ئی نہیں ہو رہی تو اس کو چا ہیے کہ نئے کو نڈے لا ئے اور ان میں پو ریا ں بھر کر میر ی فا تحہ پڑھے پھر میر ے وسیلے سے دعا مانگے اگر اس کی حا جت روا ئی اور مشکل کشا ئی نہ ہو ئی تو وہ قیا مت کے روز میرا دا من پکڑ سکتا ہے مذکورہ عورت نے اس ورد کے مطابق عمل کیا اس کے نتیجہ میں خا وند ایک مد فو ن خزانہ لے کر واپس آگیا فقرو فاقہ کے دن امیر انہ ٹھا ٹھ با ٹھ میں بد ل گئے ہما رے معزز و مکرم دوست مولا نا فضل الر حمن اپنے کتا بچہ "رجب کے کو نڈے"میں تفصیلی کہا نی کے اختتا م پر رقمطراز ہیں ۔
" یہ من گھڑت قصہ ہے کہ اس کی کو ئی سند نہیں کسی بھی مستند کتا ب میں یہ منقو ل نہیں اس کے جھوٹے ہو نے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں نہ کبھی کو ئی با د شا ہ ہوا اور نہ ہی کو ئی وزیر حضرت صادق کی پیدائش ایک روایت کے مطابق 8رمضا ن 80ھ میں ہوئی اور دوسری کے مطا بق 7ربیع الاول 83ھ میں ہو ئی ان کی وفا ت پر اتفا ق ہے کہ 15شوال 148ھ میں ہو ئی ان کی عمر عزیز کے تقر بیاً 52سال خلفا ئے بنی امیہ کے عہد میں گزرے جن کا دارالخلافہ دمشق تھا با قی سال بنو عبا س کے دور خلافت میں گزر ے جنہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا معلو م ہوا کہ 22رجب (جعفر صادق کا یو م پیدا ئش ہے اور نہ ہی یو م وفا ت )درحقیقت اہل تشیع کے ہاں اس دن کا تب وحی اور ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھا ئی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر خوشی منا ئی جا تی ہے جب اہل سنت والجماعت تک بات پہنچی تو اس کو داستا ن عجیب کے ذریعہ ایک نئی صورت دے دی گئی ۔(ص 13۔14)
مز ید آنکہ حضرت جعفر کی طرف منسو ب عبا رت شر کیات سے پرہے جس سے وہ کو سوں دور تھے قرآن نے شہا دت دی ہے کہ اللہ کے سوا کو ئی فر یا د رس نہیں ہے :
﴿أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ...﴿٦٢﴾... سورة النمل
"کو ن ہے جو مجبو ر کی پکا ر سنتا ہے جب وہ اسے پکا رتا ہے اور تکلیف کو دورکرتا ہے ۔" اور نفع و نقصان کا ما لک وہی مختا ر کل ہے قرآن میں سورۃ یو نس ،الاعراف ،الانعام ،الانفطار، المو من وغیرہ کی متعدد آیا ت میں اس با ت کی صرا حت مو جو د ہے ۔ «ماشاء الله كان وما لم يشا لم يكن»اور وسیلہ بذات المخلو ق کفا ر مکہ کا عقیدہ تھا جس کی سورۃ الا نعا م اور سورۃ یو نس میں واضح الفا ظ میں تر دید کی گئی ہے یہ شواہد ہیں کہ حضرت جعفر صادق جیسی عظیم ہستی مجسمہ تعلیما ت کتا ب و سنت اس کے منا فی حکم صادر نہیں کر سکتے لہذا ان کی طرف منسوب حکایت جھوٹی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب