السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اکثر جگہوں پر کلما ت لکھے ہو ئے دیکھے اور اب بھی دیکھتا ہوں جو در ج ذیل ہیں جس نے گلے میں تعو یز لٹکا یا اس نے شر ک کیا اور ساتھ یہ حدیث لکھی ہو تی ہے ۔
«من تعلق تميمة فقد اشرك»(مسند احمد)
گزارش ہے کہ یہ صحیح ہے یا غلط یا حدیث مذکو ر کا درجہ کیا ہے اگر اس کا ذکر کہیں نہ ہو تو بھی درخواست ہے کہ گلے میں تعویز پہننا کیسا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک حدیث مذکو ر کا تعلق ہے تو وہ حضرت عقبہ بن عا مر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسند احمد میں مرو ی ہے ملا حظہ ہو ۔(صححه البانی احمد 4/156) (17353) وقال محققه حمزۃ :اسنادہ حسن الحاکم 4/219 (7513) سکت عنه الذھبی الصحیحة (492) قال الامام البیہقی رحمة اللہ :والتمیمة يقال :انها ذخرزة كانوا يتعلقونها (٩/350) السنن الكبري) (الفتح الربا نی :17/187)مسند احمد کے مبوب اور شارح علا مہ سا عا تی مصری نے اس کے رجا ل کے با ر ے میں کہا ہے کہ " رجالہ ثقات "(اس کے راوی ثقہ ہیں )اب مسئلہ یہ رہ جا تا ہے کہ تمیمہ کا صحیح مفہو م اور مطلب کیا ہے اس سلسلے میں ائمہ لغت و شارحین حدیث ۔
کے چند اقوال حسب ذیل ہیں ۔تمیمہ کا معنی منکا لکھا ہے چنانچہ امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔
«التمائم جمع تميمة وهي خرزات» (النهاية :١/١٩٨)
"تمائم تمیمہ کی جمع ہے اور اس کے معنی منکے کے ہیں ۔"
اور کتا ب "لسا ن العرب"میں ابو منصور سے منقول ہے :
«التمائم واحدتھا تميمة وهي خرزات» (لسان العرب 12١/7)
'' تمائم کامفرد تمیمہ ہے اور وہ منکوں کانام ہے۔''
اسی طرح "فتح المجید " میں علا مہ خلخا لی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
«وھی ما یعلق باعناق الصبیان من خرزات وعظام» (ص27)
"تمیمہ ان ہڈیوں اور منکو ں کا نا م ہے جو بچوں کے گلے میں لٹکا ئی جا تی ہیں ۔"نیز "لسا ن العر ب " " میں ہے :
«ولم اربین الاعراب خلافا ان التمیمة هي الخرزة نفسها» (12/70)
"مجھے اعرا ب میں کسی کا اختلا ف معلو م نہیں ہو سکا تمیمہ فی نفسہ منکوں کو کہا جا تا ہے ۔اور یہی مذہب ائمہ لغت کا بھی ہے ۔ واضح ہو کہ اہل جاہلیت یہ فعل اس لیے کرتے تھے تا کہ اپنی اولا د کو نظر بد سے محفوظ رکھ سکیں چنانچہ "المنجد "میں ہے :
«كان الاعراب يضعونها علي اولادهم للوقاية من العين ودفع الارواح»
"اعراب اپنی اولا د کو نظر بد اور بد رو حوں سے بچا ؤ کی خا طر ان کے گلے میں تمیمہ لٹکا تے تھے ۔ "
امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ ہذا کی مزید وضا حت کر تے ہو ئے رقمطراز ہیں :
«كانهم يعتقدون انها تمام الدواء والشفاء وانما جعلها شركا لانهم ارادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم فطلبوا دفع الذي من غير الله الذي هو دافعه» (النهاية :١/١٩٨)
"گو یا کہ ان کا یہ عقیدہ تھا تمیمہ ہی مکمل دوا اور شفا ء ہے اور اس تمیمہ کو اللہ کا شر یک ٹھہرا دیا ۔انہوں نے چا ہا کہ تمیمہ کے ذریعے لکھی ہو ئی تقدیر کو محو کر دیں اور بیما ر یوں کے ازا لہ کے لیے غیراللہ کا سہا را ڈھو نڈا حالا نکہ صرف رب العز ت ہی تکا لیف کو دور کر نے والا ہے ۔اور حا فظہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
«التمائم جمع تميمة وهي خرز او قلادة تعلق في الراس كانوا في الجاهلية يعتقدون ان ذلك يدفع الافات»(فتح البا ری :10196)
"تمام تمیمہ کی جمع ہے اور وہ منکے یا ہا ر ہے جسے سر میں لٹکا یا جا تا ہے جاہلیت میں لو گو ں کا اعتقاد تھا کہ اس سے مصائب رفع ہو جا تے ہیں ۔ "
اہل فن کی تشر یحا ت کی رو شنی میں ۔«من تعلق تميمة فقداشرك» کا مفہوم بھی واضح ہو گیا کہ مقصود اس سے مذکورہ معتقدات کی تر دید ہے نہ کہ معروف تعو یذا ت جن میں جا ہلیت والے مشر کا نہ تصوررا ت نہیں ہو تے ۔
علا مہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے "سلسلۃ الا حادیث الصحیحہ" میں صاحب " دلا ئل الخرات " کا رد کیا ہے جس نے تمیمہ کی تعریف میں قرآنی آیا ت یا اسمائے الہیٰ پر مشتمل مر قوم تعو یز ات کو دا خل کیا ہے ۔
قرآنی آیا ت اور اسما ء اللہ الحسنی پر مشتمل تعو یذ لٹکا نے کے با ر ے میں سلف اور اور خلف کا ہمیشہ سے اختلا ف چلا آرہا ہے کچھ منع کے قائل ہیں اور دیگر نے جوا ز کا فتو ی دیا ہے ۔چنانچہ " فتح المجید " میں ہے :
«لکن اذا کان المعلق من القرآن فرخض فیه بعض السلف وبعضهم لم يرخص فيه» (١/٣٩٢)
"لیکن لٹکی ہو ئی شے جب قرآنی آیا ت پر مشتمل ہو تو بعض سلف نے اس کو جا ئز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجا ئز قرار دیا ہے اس سے معلوم ہو ا متنا زعہ فیہ شی صرف جوا ز عدم جوا ز ہے نہ کہ جواز کا معتقد و عا مل مشر ک ہے شر ک کا فتو ی صا در کر نے سے پہلے قا ئلین با لجوا ز سلف کو بھی ملحو ظ خا طر رکھنا ضروری ہے ۔
من كان مستنا فليستن بمن قد مات........الخ
البتہ دلا ئل کی روسے میر ے نز دیک محقق مسلک یہی ہے کہ تعو یز گنڈے سے مطلقاً احترا ز کیا جا ئے اور صرف ثا بت شدہ دم پر اکتفا کیا جا ئے ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب