سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(308) مردے کو لے جاتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا

  • 13029
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1003

سوال

(308) مردے کو لے جاتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مردے کو لے جاتے وقت کلمہ شہادت پڑھنا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمہ شہادت کا ورد کرنا احادیث سے ثابت نہیں دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا درست نہیں۔کما تقدم

ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔:

’’ اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم ’’ (١)

'' پیروی کرو بدعت مت نکالو تمہارے لئے یہی کافی ہے۔''

اور امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

’’ فما لم يكن يومئذ دينا لا يكون اليوم دينا ’’ (2)

یعنی '' جو شے عہد رسالت میں دین نہیں تھی۔ وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔''

اس لئے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿٣﴾... سورة المائدة

جو شخص اسلام میں  بدعت ایجاد کرکے اسے مستحسن خیال کرتا ہے وہ گویا یہ سمجھتا ہے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیغام رسانی میں (نعوذ باللہ من ذلک) خیانت کی ہے۔

اصل یہ ہے کہ ایسے موقعہ  پر انسان خود اپنی موت بھی یاد کرکے اپنے لئے زاد راہ بنائے۔شریعت میں زیارت قبور کا یہی  فلسفہ بیان ہوا ہے کہ

« فانھا تذکر الاخرہ» ( 3) الحدیث

بے شک یہ آخرت یاد دلاتی ہے۔

واضح ہو کہ بدعت کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیشہ استحسانی صورت میں سامنے آ تی ہے جب کہ فی الواقع ایک مسلم کا  مطمع نظر ہر حالت میں ہمیشہ کتاب وسنت کی پیروری ہونا چاہیے۔خواہ وہ عمل بظاہر کتنا ہی کم نظر آئے۔کیونکہ  اصل    قدروقیمت تعلق بالشریعت کی ہے۔لا غیر۔

'' الخير كل الخير في الاتباع والشر كل الشر في الابتداع ’’


1۔ الدارمي (١/80) رقم(205) والبدع والنهي عنها ص10 لامام محمد بن وضاح واصول السنة لابن ابي زمنين وقال محققه :الاثر صحيح ورواه ابو خشيمه في العلم رقم(٥٤) من طريق العلاء عن حماد بن زيد به وصحح اسناده العلامة الباني

2۔ الاعتصام في ذم البدع (١/٣٣ للشاطبي.

3۔ صحيح الترمذي ابواب الجنائز باب ماجاء في الرخصة في  زيارة القبور (1066) وصححه الباني وزاد ابن ماجه من حديث ابن مسعود :’’ وتزهد في الدنيا ’’(١٥٦٩) عن ابي هريرة رضي الله عنه

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص598

محدث فتویٰ

تبصرے