السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عبدالماجد عبدالصمد وغیرہ کو صرف صمد یا ما جد کہہ کر پکا ر سکتے ہیں ؟ جب کہ دل میں اللہ کے صفاتی نام الما جد الصمد مراد نہ ہوں صرف مخا طب سے خطا ب مقصود ہے ہو اگر نہیں کہہ سکتے تو اس با بت کیا فر ما تے ہیں علما ئے کرا م کہ ایک شخص کا نا م محمد احمد ہے جب کہ یہی نا م نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذا تی نا م ہیں کیا اس شخص کو صرف محمد یا احمد پکا ر ا جا سکتا ہے ؟ جب کہ وقت خطا ب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرا د نہیں ہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
با ت یہ ہے کہ یہا ں لفظ " الصمد " اور الماجد " سے مرا د یقینی طور پر اللہ عزوجل کی ذا ت گرا می ہے اضا فت عبد مو جو د ہو یا مخدوف بہردو صورت یہی کچھ سمجھا جا تا ہے کہ مقصود "عبد الصمد " ہے یا عبدالماجد " ایک نا م ہے لہذا پو را نا م پکا ر نا ہی بہتر ہے ہاں البتہ کلیتاً انقطا ع اضا فت کی صورت میں یہ اطلا ق ممکن ہے ۔
اور جہا ں تک محمد احمد کا تعلق ہے سویہ مستقل طو ر پر دو نا م اگر چہ عجمی زبا ن میں مر کب کی صورت میں ان کو ایک بنا دیا گیا ہے تو غیر نبی پر ان کے اطلا ق میں کسی کو کلا م نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذا ت خو د اپنے بیٹے کا نا م جد الا نبیا ء ابرا ہیم علیہ السلام کے نا م پر رکھا تھا نیز فر ما یا :
«سموا باسمي»(١)(بخا ری)
"میر ے نا م پر نا م رکھو ۔"
اور صحیح مسلم میں حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :
«انهم كانوا يسمون باسماء انبيائهم والصالحين قبلهم»(2)
"لو گ اپنے انبیا ء اور اپنے سے پہلے نیک لو گو ں کے نا مو ں پر نا م رکھتے تھے اوردوسری روایت میں ہے ۔
«تسموا باسماء الانبياء»(3)(ابو داؤد نسا ئی )
"الا دب المفرد" میں یو سف بن عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نا م یو سف رکھا ہے اس کی سند صحیح ہے ۔(الادب المفردباب اسماء الانبياء رقم (٨٣٨) وصححه الباني)(فتح البار ی 10/578)
تا ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقدس کی بنا ء پر یہ بھی مکرو ہ سمجھا ہے ان کا قصد بھی اچھا ہے لیکن سا بقہ دلا ئل کی بنا ء پر تر جیح جوا ز کو ہے ۔
1۔ صحیح مسلم کتاب الادب باب النھی عن التکنی بابی القاسم (5586۔5597)
2۔ صحیح مسلم كتاب الادب باب النهي ...وبيان ما يستحب من الاسماء (٥٥٩٨)
3۔ ابو دائود كتاب الادب باب في تغير الاسماء -4950) ضعفه الباني وانظر :الارواء (٤/408) رقم(١١٧٨) فيه عقيل بن شبيب وقال الذهبي :’’ لا يعرف ’’ وقال الحافظ:’’ مجهول’’
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب