السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں الحمد سو یٹس کے نا م سے مٹھا ئی کی دکا ن کر رہا ہو ں بعض حضرا ت کا کہنا ہے کہ لفظ الحمد کی بے ادبی ہو تی ہے واضح رہے کہ الحمد سو یٹس ڈ بو ں اور شا پروں پر لکھا جا تا ہے اور پھر وہ پا ؤں تلے آتے ہیں ۔ اس طرح لفظ الحمد کی بے اد بی ہو تی لہذا اس بے ادبی کی شر عی حیثیت مطلو ب ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لفظ "الحمد " بطو ر اسم استعما ل کا کو ئی حر ج نہیں کئی ایک ذوات و اشخاص کے اسما ء جو کتا ب اللہ میں وارد ہیں علی الا طلا ق ان کے استعما ل کا جوا ز ہے اسی طرح یہاں محل بحث میں سمجھ لینا چا ہیے ہاں البتہ "الحمد " کی نسبت اختصاص یا اضا فت " ذ والجلا ل والا کرا م " کی طرح ہو مثلا " الحمد اللہ " یا ولہ الحمد تو اس صورت میں احتیا ط کا تقاضا یہ ہے کہ اہا نت کے خو ف سے اس کا استعما ل نہ ہو اگر چہ دعوتی نکتہ نظر سے اس کے استعما ل کا بھی جوا ز ہے سر برا ہا ن حکو مت وساءدول کی طرف آپ کے پیغا ما ت بھی اسی نظر یہ کے مؤید ہیں ۔
اسی بناء پر خطوط و سارئل میں "786" کے بجا ئے محققین اہل علم کے نز دیک " بسم اللہ الرحمن الر حیم " کا تعین ہے ۔(صحیح البخاری بد ء الوحی رقم (7) جملہ دلا ئل سے معلو م ہوا کہ "الحمد سویٹس " کے نا م سے کا رو با ر جا ر ی رکھا جا سکتا ہے شر عاً کو ئی قبا حت نہیں لیکن ایک مسلما ن کے لیے اللہ کے ذکر کی صورت میں نجس مقا مات سے احتفاظ کا پہلو غا لب رہنا چا ہیے سنن ابو داؤد میں حدیث ہے ۔
«اذا دخل الخلاء وضع خاتمه»( ابو دائود کتاب الطھارۃ باب الخاتم یکون فی زکر اللہ تعالیٰ (19) قال ابو دائود :ھذا حدیث منکر (باب الخاتم يكون فيه زكر الله تعاليٰ)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا ء میں دا خل ہو تے تو اپنی انگو ٹھی اتا ر لیتے کیو نکہ اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقش تھا اسی حرمت کے پیش نظر دشمن کی سر زمین میں قرآن سمیت سفر سے منع کیا گیا ہے ویسے بھی "حمد سے مقصود چو نکہ ثناء اور ذکر خیر ہو تا ہے گو یا کہ اس اظہا ر تشکر کی طرف بھی اشا رہ ہو گیا اس بنا ء پر دکا ن کے لیے تسمیہ حسن تفاؤ ل کے قبیل سے ہوا جو خیر و بر کت کا مو جب ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب