السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک صحت مند ذہین لڑکا تھا لیکن آہستہ آہستہ میں با لکل خراب ہو گیا ایک عورت سے علا ج ۔کرا یا ۔ اس نے کہا کسی نے جا دو کر دیا ہے (اڑھا ئی ) سال علا ج کروا یا بہت افا قہ ہوا ۔الحمد اللہ لیکن وہ عورت غلط عقیدہ کی تھی لہذا میں نے اور میر ے گھر والو ں نے علا ج چھو ڑ دیا ابھی میں مکمل ٹھیک نہیں ہوا خو ف بہت آتا ہے عجیب عجیب خیا لا ت گر دش کر تے رہتے ہیں بلا وجہ غصہ آتا ہے میر ی والدہ کا اور چھو ٹے بھا ئی کا بھی یہی حا ل ہے گھر کی حا لت سے پر یشا ن ہو کر لکھ رہا ہوں میں نے ایک خواب میں دیکھا کہ میر ے دما غ کے ارد گرد کو ئی چیز لپٹی ہو ئی ہے اور میں نے آیا ت پڑھ کر اس چیز کو اتا ر پھینکا دما غ بالکل کا م نہیں کر تا زبا ن کسی وقت با لکل بند کسی سے با ت نہیں کر سکتا معمولی معمولی با تو ں پر ذہن پر یشا ن ہو جا تا ہے ہر طرف سے را ستے بند دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ خدا کا شکر ہے کہ میں با قا عد گی سے ظہر ،عصر۔ مغرب ،عشاء کی نما ز پڑھتا ہو ں والدہ بھی نماز ی اور پر ہیز گا ر ہیں اور والد نے کبھی حرا م نہیں کھا یا میری آپ سے گزارش ہے کہ خط کا جوا ب جلدی دیں اور جا دو کا علا ج کا بھی تجو یز کر یں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معوذات (الاخلا ص الفلق النا س ) پڑھ کر اپنے کو دم کیا کر یں (1)شیطا نی اثرا ت سے نجا ت مل جائےگی "ترمذی " اور نسا ئی " میں ہے کہ معوذات " کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ما سواسب دم جھا ڑ تر ک کر دئیے تھے (2)(بحوالہ فتح البا ر ی 10/195)
اس کا معنی یہ نہیں کہ ان کے ما سوا دم منع ہے بلکہ یہ صرف اولو یت پر محمو ل ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عا دت مبا ر ک تھی را ت کو سوتے وقت بستر پر بیٹھ کر دو نو ں ہا تھوں کو ملا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں معوذات پڑھتے پھر بقدر استطا عت منہ اور سا ر ے بدن پر مل لیتے یہ عمل تین دفعہ کر تے کسی سے عمل کے بجا ئے بذات خود اس کا التزام کر یں تو جملہ مصا ئب و مشکلا ت سے نجا ت حا صل ہو گی ۔ان شاء اللہ )
1۔صحيح البخاري كتاب فضائل القرآن باب فضل المعوذات (٥-١٧)
2۔حسنه الترمذي وصححه الباني وسكت عليه ابن حجر كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يتعوذ من الجان وعين الانسان حتي نزلت المعوذ تان فلما نزلتا اخذ بهما وترك ماسواهما صحيح الترمذي كتاب الطب باب ماجاء في الرقية بالمعوذتين (٢١٥0 ) وابن ماجه (٣٥١١) فتح الباري (10/١٩٦)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب