السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واقعی جا دو ہو گیا تھا ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بخا ری "با ب السحر" میں مو جو د ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا دو کیا گیا تھا لیکن اس کا اثر صرف حا فظہ پر تھا عقل پر نہیں تھا اس لیے تو اس حا لت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی تھی جس میں جا دو کی کیفیت سے آگا ہ کیا گیا اگر عقل پر اثر ہو تا تو وحی بلا فا ئدہ تھی چنا نچہ حدیث میں تصر یح ہے ۔
« حتي انه ليخيل اليه انه فعل الشئي وما فعله »صحيح البخاري كتاب الطب باب السحر (ح :٥٧٦٦)
یعنی" یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیا ل ہو تا کہ میں نے فلا ں کا م کر لیا ہے ۔اور در حقیقت کیا نہ ہو تا اس کی تشریح میں شیخنا محدث رو پڑی رقمطراز ہیں ۔ ان الفا ظ سے دو با تیں ثا بت ہو ئیں ایک یہ کہ جا دو کا اثر حا فظہ پر تھا عقل پر نہ تھا کیو نکہ کا م کر نے نہ کر نے کے متعلق یا د نہ رہنا یہ حا فظہ کا کا م ہے اور حا فظہ اور عقل دو قو تیں الگ الگ ہیں یکھئے بچپن میں حا فظہ قو ی ہو تا ہے اور عقل کم اور معمر ہو کر عقل بڑھ جا تی ہے اور حا فظہ میں فرق آجا تا ہے پس حا فظہ پر اثر ہو نے سے لا ز م نہیں آتا کہ عقل پر بھی اثر ہو دوسری با ت ان الفا ظ سے یہ معلو م ہوئی کہ حا فظہ پر اثر سے مرا د یہ نہیں کہ آپ کو معا ذ اللہ قرآن مجید بھو ل گیا ہو یا اس طرح کا کو ئی اور نقصا ن ہو گیا ہو بلکہ یہ صرف اس حدتک تھا کہ جزوی فعل میں کبھی بھو ل چو ک ہو جا تی اور جزوی فعل میں بھو ل چو ک معمو لی با ت ہے مثلاً نما ز میں آپ کئی دفعہ رکعتیں بھو ل گئے اور فر ما یا ۔
«انسي كما تنسون » صحيح بخاري كتاب الصلاة باب التوجه نحو القبلة حيث كان (401) صحيح مسلم كتاب المساجد باب السهو في الصلاة والسجود له (١٢٧٤)
یعنی" جیسے تم بھو ل جا تے ہو میں بھی بھو ل جا تا ہو ں ۔"
بتلا ئیے! یہ بھو لنا کو ئی دین میں نقصان دہ تھا پس اگر جا دو کے اثر سے عام بھو لنے کی نسبت کسی قدر زیا دہ بھو ل چو ک ہو جا تی ہے تو یہ بھی دین کے منا فی نہیں بلکہ بعض روا یا ت میں اس جزوی فعل کی تعین بھی آئی ہے حا فظ ابن رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں ۔" بعض لو گ کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد یہ ہے کہ آپ کو اپنی بیو یو ں کے پا س آنے کا خیا ل آتا مگر آئے نہ ہو تے اور ایسا خیا ل خوا ب میں بہت آتا ہے پس بیداری میں بھی کو ئی بعید نہیں ۔" میں کہتا ہو ں یعنی حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ بعض نے حدیث کی مرا د بیا ن کی ہے یہ بعض روا یتو ں میں صرایحاً آیا ہے کہ آپ کو اپنی بیو یو ں کے پا س آنے کا خیا ل آتا مگر آئے نہ ہوتے اور ایک روا یت کے الفا ظ یو ں ہیں ۔
«حتي كاد ينكر بصره »قال ابن حجر عن سعيد بن المسيب عندعبدالرزاق مرسلا فتح الباري (10/٢٢٧)شرح الحديث (٥٧٦٣)
یعنی" جا دو کے اثر سے قر یب تھا کہ آپ کی بصا رت میں فرق آجائے’’
ان روا یتوں سے معلو م ہوا کہ جا دو کا اثر آپ کے بد ن پر ایسا ہی تھا جیسے ظا ہر ی امرا ض سے بد ن میں کمزوری آجا تی ہے اور اعضا ء ڈھیلے پڑ جا تے ہیں اور اشیاء وغیرہ بند ہو جا تی ہیں مز ید وضا حت کے لیے ملاحظہ ہو ،(فتاوی اہل حدیث (1/186۔187)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب