السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا خاص مصیبت میں انسا ن تعویز لے سکتا ہے ؟ اور شر کیہ دم جھا ڑ کر سکتا ہے یا کروا سکتا ہے ؟ بعض علما ء کا بھی فتوی ہے کہ اگر جا ن کا خطرہ ہو اور جا ن بچا نا مقصود ہو تو انسا ن شرکیہ دم جھا ڑ کرو ا سکتا ہے حا لا نکہ اللہ نے فر ما یا میں چا ہوں تو ہرگنا ہ کو معا ف کر دوں گا لیکن شرک کو معا ف نہیں کرو ں گا نبی پا ک صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا انسان تو قتل ہو جا ئے زندہ جل جا ئے لیکن (لا تشرك بالله) "اللہ کے ساتھ شر ک نہیں کر نا ۔ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبرعلی البلاء(4034) المشکواۃ (850)والادب المفرد (18) بتحقیق البانی رحمة اللہ علیہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسنو ن دم کے لیے اہل علم نے بعض شرطیں بیان کی ہیں یعنی دم اللہ کے کلا م یا اس کے اسما ء صفا ت اور عربی زبا ن میں ہو دم معروف المعنی ہواور یہ اعتقا د رکھا جا ئے کہ دم جھا ڑ ا بذا تہ مؤ ثر نہیں بلکہ اس کی تا ثیر اللہ عزوجل کی قضاءو قدر سے ہے ۔(عون المعبو د 4/21)
اس تعریف سے معلو م ہو ا کہ پر یشا نی کے مو قعہ پر شر کیہ دم جھا ڑ ا کرنا نا جا ئز ہے پھر بعض روا یا ت میں تصریح مو جو د ہے ۔
«لا باس بالرقي ما لم تكن شركا»صحیح مسلم کتاب السلام باب لا باس بالرقی ما لم یکن فیه شرک (5732)
یعنی " دم کا کو ئی حر ج نہیں جب تک وہ شر کیا ت پر مشتمل نہ ہو ۔(سنن ابی داؤد ،با ب فی الرقی )
اس حدیث سے معلو م ہو ا کہ شر کیہ دم جھا ڑا بالکل نا جا ئز ہے اس طرح تعو یز ات سے بھی احترا ز کر نا چا ہیے صرف ثا بت شدہ دم پر اکتفا کیا جائے اسی میں خیرو بر کت ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب