السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اللہ کے لیے نذر ما نی تھی کہ میرا یہ کا م ہو گیا تو راہ اللہ دو دیگ چا و ل پکوا کر اپنے گا ؤں میں تقسیم کروں گا اس کا کا م ہو گیا اور وہ نذر پو ر ی کر نا چا ہتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ میرا علا قہ چولستانی ہے سلفی یا اچھے عقیدے والے لو گ یہا ں عنقا ہیں بدعتیوں کو وہ کھا نا نہیں کھلا نا چا ہتا اس کے قریب کو ئی مدرسہ بھی اہل تو حید کا نہیں اگر وہ یہ کھا نا اپنے علا قہ کے علا وہ کسی اور جگہ خیرا ت کر ے کسی مدرسہ میں تو اس کی نذر صحیح ہو گی ؟زردہ کی جگہ پلا ؤ پکا سکتا ہے ؟ یا پھر ایک علا قہ جہا ں پر صرف 5اہل حدیث ہیں جما عت کے پا س وسا ئل بالکل نہیں اس علا قہ میں درس کا کمرہ ہے جس کی وائرنگ ہو نی با قی ہے اگر کو ئی شخص مذکو ر نذر کی رقم سے درس کے کمرہ کی وائرنگ کروا دے اس کی نذر ادا ہو جا ئے گی ؟ یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں ما ل منذور مدرسہ کے کمرہ کی وائرنگ وغیرہ پر صرف کر دینا چا ہیے بجا ئے اس کے اہل بدعت اور بد عقیدہ لوگو ں کے پیٹ بھر کر اپنے لیے دوزخ کا گھر بنا یا جا ئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے :
«لا تصاحب الا مومنا ولا یاکل طعامك الا تقي»صححه الحاكم ووافقه الذهبي وحسنه الباني صحيح ابي داؤد كتاب الادب باب من يومر ان يجالس (٤٨٣٢) الترمذي(٢٥١٩) الحاكم (٤/١٢٨) المشكوة (5018)
یعنی "رفا قت صرف مو من کی اختیا ر کر اور تیرا کھا نا صرف متقی پرہیز گار کھا ئے ۔ نذر پو ر ی کر نے کے لیے بہتر مصرف کی تلا ش اور اختیا ر ایک مستحسن اور قا بل تعر یف فعل ہے چنا نچہ ایک روایت میں ہے ۔
'' عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه ان رجلا جاء يوم الفتح فقال: يا رسول الله ! صلي الله عليه وسلم اني نذرت لله عزوجل ان فتح الله عليك مكة ان اصلي في بيت المقدس ركعتين قال «صلي ههنا» ثم اعادعليه فقال«صلي ههنا» ثم اعاد عليه فقال:« شانك ازا»صححه الباني صحيح ابي دائود كتاب لاايمان باب من نذر ان يصلي في بيت المقدس (3305) السنن الكبريٰ (10/82) للبيهقي الارواء (٢٥٩٧) وقال : صحهه ابن دقيق العيد كمافي التلخيص
(رواه ابو داؤد باب من نذر ان يصلي في بيت المقدس والدارمي والبيهقي والحاكم وصححه ايضا الحافظ ابن دقيق العيد (اور منذری نے اس پر سکو ت اختیا ر فر ما یا ہے ۔)
یعنی " حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے فتح مکہ کے دن ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں ۔حا ضر ہو ا کہ میں نے اللہ کی را ہ میں نذر ما نی تھی اگر اللہ نے آپ کے ہا تھ پر مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعتیں پڑھوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : یہیں یعنی بیت اللہ میں پڑھ لو اس نے پھر با ت کو دہرا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : یہاں پڑھ لو ۔ اس نے پھر اسی با ت کا اعادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : اب تیر ی مر ضی ۔
اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جو نذر شر عاً قابل اعتبا ر اور صحیح ہو اس کو بھی اولی صورت میں تبد یل کر نا مستحسن اقدا م ہے بنا بریں مسئو لہ صورت میں جس نذر کا بیا ن ہے اس کا تبدیل کر نا ایک حتمی اور یقینی امر ہے مز ید صا حب العون فر ما تے ہیں ۔
(وفيه دليل علي ان من نذر بصلواة او صدقة او نحو نحوهما في مكان ليس بافضل من مكان الناذر فانه لا يجب عليه الوفاء بايقاع المنذور به في ذلك المكان بل يكون الوفاء بالفعل في مكان الناذر)(3۔2333)
اس طرح حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ایک عورت بیما ر پڑ گئی اس نے نذر ما نی اگر اللہ نے شفا دی تو بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھے گی جب اسے صحت یا بی ہو ئی تو با لفعل اس نے سفر کی تیاری شروع کر دی حضرت میمو نہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر ما یا مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی نماز پڑھ لے کیوں کہ یہا ں ایک نماز ہزار کا درجہ رکھتی ہے ۔( صحيح مسلم كتاب الحج باب فضل الصلاة بمسجدي مكة والمدينة (٣٣٨٣) (رواہ احمدو مسلم )
صاحب العون فر ما تے ہیں ۔
(ففي حديث ميمونة رضي الله عنها من تعليل ماافتت به ببيان افضلية المكان الذي فيه الناذر في الشئي المنذور به وهو الصلواة ’’)(3/234)
رقم مدرسہ پر لگا نے سے نا ذر (نذر ما ننے والا ) اس سے محفو ظ و مصؤن ہو جا تا ہے ۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب