السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی کچھ زمین ہے۔اس نے نیت کی تھی کہ جب یہ زمین فروخت ہوگی تو حاصل شدہ رقم کا مسجد پر خرچ کروں گا۔(خرچ کی صورت یہ ہے کہ دریاں اور پنکھے وغیر ہ خرید کر مسجد میں رکھنے ہوں گے) اب اس شخص کو ایک دوسرے شخص نے کہا ہے کہ تمہارا حقیقی بھانجا مقروض ہے اور اس کا کوئی کاروبار نہیں۔ عیالدار بھی ہے جس کا تجھے بخوبی علم ہے تم یہ رقم مسجد پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے بھانجے کو دے دو تاکہ وہ ا س سے اپنا کاروبار کرسکےاب مسئلہ دریافت طلب یہ ہے کہ وہ یہ رقم مسجد پر خرچ کردے یا اپنے بھانجے کو دے دے۔؟اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ مسجد کو رقم دینے کی اس نے زمین فروخت کرنے سے پہلے نیت کی تھی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چیزوں کی اہمیت کے پیش نظر نیت میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ایک شخص فتح مکہ کے دن کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں نے اللہ عزوجل کے واسطے نذر مانی ہے۔کہ اگر تم پر اللہ فتح مکہ کردے تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ نماز پڑھ لے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے دوبارہ وہی بات پوچھی پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس جگہ نماز پڑھ لے پھر سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی بات پوچھی پس آپ نے فرمایا:تو اس وقت مختار ہے۔''(رواہ ابودائود والدارمی بحوالہ مشکواۃ باب فی الذور)
یہاں چونکہ دو چیزیں قرابت اور صدقہ جمع ہوگئی ہیں بخلاف پہلے مصرف کے کہ وہاں صرف صدقہ ہی ہے تو اس بناء پر طے شدہ نسبت مال مقروضہ بھانجے کو دے دینی چاہیے۔
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب