سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(460) زمانے کے اعتبار سے حج کے اوقات

  • 1298
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2112

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زمانے کے اعتبار سے حج کے اوقات کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

 زمانے کے اعتبار سے حج کے اوقات کا آغاز ماہ شوال کی ابتدا سے اور اختتام دس ذوالحجۃ یعنی یوم عید یا ذوالحجہ کے آخری دن کو ہوتا ہے اور راجح قول یہی (آخری) ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـتٌ...﴿١٩٧﴾... سورة البقرة

’’حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں۔‘‘

’’اشہر‘‘  (مہینے) جمع کا صیغہ ہے اور جمع میں اصل یہ ہے کہ اس سے اس کی حقیقت مراد لی جائے۔ اس لحاظ سے اس کے معنی یہ ہوئے کہ حج ان تین مہینوں کے اندر ہی ادا کیا جا سکتا ہے اور یہ کسی ایک دن نہیں ہوتا۔ حج کے ایام معین اور معلوم ہیں اس قول کی بنیاد پر کہ ذوالحجہ کا سارا مہینہ ہی حج کا مہینہ ہے، طواف افاضہ اور حج کی سعی کو ذوالحجہ کے آخری دن تک مؤخر کیا جا سکتا ہے اسے کسی شرعی عذر کے بغیر اس کے بعد تک مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً: یہ کہ طواف افاضہ سے قبل اگر عورت کے مخصوص ایام شروع ہو جائیں اور وہ اسی حالت پر باقی رہے اور ذوالحجہ کا مہینہ ختم ہو جائے، تو اس صورت میں طواف افاضہ کو مؤخر کرنے کے لیے وہ معذور ہے۔ یہی حج کے زمانی اوقات ہیں۔عمرے کے لیے کوئی زمانی اوقات مقرر نہیں ہیں، یہ سال کے کسی دن بھی ادا کیا جا سکتا ہے، البتہ رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سارے عمرے حج کے مہینوں میں اداا فرمائے تھے۔ عمرہ حدیبیہ ذوالقعدہ میں کیا تھا، عمرۃ القضا بھی ذوالقعدہ ہی میں کیا، عمرہ جعرانہ بھی ذوالقعدہ میں اور عمرۃ الحج بھی حج کے ساتھ ماہ ذوالقعدہ ہی میں ادا فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنے کی خاص فضیلت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ ادا کرنے کے لیے انہی مہینوں کا انتخاب فرمایا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ413

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ