السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میر ے ایک بھا ئی بینک میں منیجر کے عہدہ پر فا ئز ہیں وہ اس ملا زمت کو چھوڑنا چا ہ رہے ہیں چو نکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ملا زمت غیر شر عی ہے بینک کا زیا دہ تر کا رو با ر سودی کا رو با ر ہے اگر چہ کچھ کا م تجار ت لین دین پر معا وضہ لو گو ں کی امانتوں کو رکھنا اور بحفا ظت واپس کر نا زکو ۃ اکٹھا کر نا دیگر گو ر نمنٹ کے ٹیکس وغیرہ کا اکٹھا کرنا طلبا ضرورت مند لو گو ں کو ادھا ر دینا وظا ئف اور دیگر سہولتیں دینا وغیرہ کا م بھی بینک کر تا ہے ۔
(1)-آیا شرعی طور پر اس قسم کے ادارہ میں ایمانداری سے اپنے فرا ئض بہ احسن طر یق ادا کر نے کی صورت میں تنخواہ اور دیگر سہولتیں جا ئز ہیں ؟
(2)- آیا ان امو ر کی انجا م دہی میں اس شخص کا کر دا ر سودی کا م کر نے والو ں کا کر دار ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سودی لین دین کر نے والے بینکوں میں ملا ز مت کر نا حرا م ہے ۔ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے :
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَديدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورة المائدة
"نیکی اور پر ہیزگا ری کے کا مو ں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گنا ہ اور ظلم کی با تو ں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرے رہو ! کچھ شک نہیں کہ اللہ كا عذاب سخت ہے ۔"
بینک میں ملا زمت اختیا ر کر نا چو نکہ برا ئی اور سر کشی میں دست تعاون بڑھا نا ہے اس لیے حرا م ہے اور صحیح مسلم حدیث ہے :
«لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم اكل الربوا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال :«هُم سواء»صحیح مسلم کتاب المساقاة باب لعن آکل الربا وموکله .........(4093)
یعنی " حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیا ج لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فر ما ئی اور فر ما یا : (سب ) برا بر ہیں یعنی گنا ہ میں۔
مذکورہ حدیث کی رو سے ربوی (سودی) کا رو با ر سے متعلق سب لو گ ملعون ہیں لہذا بینک کی ملا ز مت کو فوراً خیر با د کہہ کر رب کی زمین میں اپنے اور اہل و عیا ل کے لیے لقمہ حلا ل کی تلا ش میں لگ جا نا چا ہیے آسما نو ں اور زمین کے خزانے اسی کے ہا تھ میں ہے کیڑوں مکو ڑوں کو پتھروں میں روزی پہنچا نے والا آپ کےلیے بھی روزی کا بندوبست ضرور کر ے گا :
﴿وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسبُهُ...٣﴾... سورة الطلاق
یا د رہے جملہ عبا دا ت کی قبو لیت کا انحصا ر اکل حلا ل پر ہے فر ما ن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : حرا م سے نشو و نما پا نے والے بدن پر رب کی بہشت حرا م ہے (1)کہیں ایسا نہ ہو خوا ب غفلت میں ہی مو ت آجا ئے تو پھر احکم الحاکمین کی عدا لت عا لیہ میں سوائے شر مند گی اور ندا مت کے کو ئی جواب نہ بن پا ئے ۔ عقلمندی یہ ہے کہ آنے والے وقت سے پہلے اسی دنیا فا نی میں اپنے آپ کا محا سبہ کر لیا جا ئے تا کہ آنے والی گھڑی میں سدا با غ و بہا ر کے وارث بن سکیں ۔
«قال الله تعاليٰ : اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات ولا اذن سمعت ولا خطر علي قلب بشر » (2)
1۔ الاول :اسناده ضعيف قاله الاستاذ ارشاد الحق اثري حفظه الله تعاليٰ ابو يعلي بتحقيق الاثري (١) ٨٥)(٧٨‘٧٩)ومختصر زوائد مسند البزار لابن حجر (٢/٥١٤) وقال ابن حجر :فيه عبد الواحد ’’ ضعيف جدا’’ الثاني معناه صحيح ثابت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم انظر: بهذا الفظ« لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت الناراولي به »احمد (٣/٣٢١) وقال حمزة :اسناده صحيح عبدالرزاق (١١/٣٤٦) (٢-٧١٩) ابن حبان (٥/٩) (١٧٢٣) الاحسان )الدارمي (٢٨١٨) بتحقيق حسين سليم وقال:’’نوي’’وقال شعيب ارناووط ’’ صحيح ’’ والطبراني في الاوسط (٢٧٥١-٤٤٧٧)عن كعب و (٦٦٧١) عن حزيفة والمشكاة (٢٧٧٢) عن جابر.
2۔ صحيح مسلم كتاب الجنة باب صفة الجنة (٧١٣٢)
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب