السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تنظیم سا ز ی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ تنظیم سا زی کر نا عین اسلام کی خدمت ہے یا گنا ہ کبیرہ؟ یا بدعت ہے ؟ واضح رہے کہ ایک ہی عقیدہ و نظر یہ کے حا مل قرآن و سنت کے پیرو کا روں نے مختلف نامو ں سے بے شما ر تنظیمیں بنا ڈا لی ہیں اور وہ سر گر م عمل ہیں لیکن متحد نہیں اور ایک امیر نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مخا لفت کر تے ہیں الغرض آج کل تنظیم ہی کو معیا ر حب و بغض تصور کر لیا گیا ہے ۔
اب اس صورت حا ل میں ایک عا م مسلما ن کا کیا رویہ ہو نا چا ہیے ؟نیز شر عی خلا فت اور اما رت کی غیر مو جو د گی میں ایک مسلما ن اپنی زند گی کس طرح بسر کر ے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام وقت اگر محسوس کر ے تو تنظیم سا ز ی " کا جوا ز ہے "صحیح بخا ری" میں حدیث ہے :
«اكتبوا لي من تلفظ بالاسلام من الناس»صحیح البخاری کتاب الجهاد باب كتابة الامام الناس (3060) باب كتابة الامام الناس)
یعنی " مجھے ان لو گو ں کے نا م لکھ کر دو جو مسلما ن ہو چکے ہیں ۔
لیکن یہ "تنظیم سا زی" کفر کے مقا بلے میں ہے آپس میں نہیں ہم مسلک او ر ہم مشر ب مختلف گرو ہ اور جما عتوں کی تنظیم سا زی " اتفاق کے بجا ئے افترا ق کا سبب بنے گی اس سے بچا ؤ ضروری ہے ۔
امت مسلمہ کے ذمہ سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ خلا فت وا مرت کے قیا م کے لیے سعی کر یں جما عت امو ر شر یعت ایک نظم و نسق کے تحت آنے سے ہی ملی و حدت کا خوا ب پو را ہو سکتا ہے ورنہ انجا م کا ر تشت تفرق اور انتشار کے ما سوا کچھ نہ ہو گا قرآنی تعلیما ت میں اس سے ہمیں با ز رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم...﴿٤٦﴾... سورة الانفال
اور امام المحدثین بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں با یں الفا ظ تبو یب قا ئم کی ہے ۔
«ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب وعقوبة من عصي امامه »صحیح البخاری کتاب الجہاد رقم الباب (164)
(2)پھر آیت با لا سے استدا لا ل کیا ہے انتہا ئی دکھ درد اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج سیکو لر ملحدا نہ اور بے دین نظر یا ت کے حا مل افراد اور تنظیمیں پو ری ہمت اور قوت کے سا تھ اسلا م اور اہل اسلا م کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں اور تو ا نا ئیوں کو استعما ل کر رہے ہیں کسی حد تک وہ اپنی کا میابی و کا مرا نی کے خوا ب پو رے ہو تے بھی دیکھ رہے ہیں لیکن اسلا م کے علمبردار اور مد عیا ن کتا ب و سنت با لخصوص سلفی یا اہل حدیث حضرات بری طرح افتراق و انتشا ر کا شکا ر ہیں جس سے واپسی کی بظا ہر کو ئی نظر نہیں آتی ۔
«الا ان يشاء الله ربنا وسع ربنا كل شئي علما»
دراصل با ت یہ ہے کہ قریباً ہر جما عت اور ہر تنظیم کے ذمہ داران اور قائدین حضرات کے ذاتی نوعیت کے کچھ مفا دات اور اغرا ض و مقاصد ہیں جن سے وابستگی ان کے نزدیک جزو ایما ن ہے عوام کا لا نعا م کو دجل و فریب کے ذریعے سبز با غ دکھا کر انہی کی تکمیل و تر ویج میں شب و روز مصروف کا ر ہیں اسی کے نتیجہ میں جگہ جگہ لڑا ئی جھگڑ ے اور ریا کا ری اور قتل و غا رت کا با زار گر م ہے اور تکفیری تو پوں کے رخ غیرو ں کی بجا ئے اپنوں کی طرف زیا دہ ہیں اندریں حا لا ت خیرو سلامتی کی راہ مجھے تو صرف اس میں نظر آتی ہے کہ جما عتی سیا ست سے گو شہ نشینی اختیا ر کر کے مخلصین احبا ب کو ساتھ ملا کر یا انفرادی طور پر جیسے بھی ممکن ہو شہر شہر قر یہ قریہ دعوتی و تبلیغی کا م پو رے انہما ک سے شروع کر دیا جا ئے اللہ تعا لیٰ خیرو بر کت فر ما کر شر ف قبو لیت سے نوا زے گا ۔ ان شا ء اللہ
ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب