سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) اہل حدیث کا قرآن و حدیث سے ثبوت

  • 12918
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1420

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث کانام قرآن وحدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ'' اہل الحدیث'' بطور صفت ان لوگوں پر مستعمل ہے۔جنھوں نے علمی اور عملی میدان میں قرآن وحدیث کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔بعد کے ادوار میں محض قرآن وحدیث سے تعلق رکھنے کی بنا پربھی ''اہل الحدیث'' کہا گیا قاعدہ معروف ہے۔'' لا مشاحة في الاصطلاح ’’ جس طرح  کہ کسی پیشہ کو اختیار کرنے یا اہل پیشہ سے تعلق کی بنا پر اس کی طرف نسبت ہوجاتی ہے۔

اس سلسلہ میں چند تصریحات ائمہ کرام بھی ملاحظہ فرمائیں:

1-« لايزال ناس من امتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتي تقوم الساعة» (١) قال علي بن المديني :’’ هم اهل الحديث ’’ –(2) قال يزيد بن هارون :’’ ان لم يكونوا اصحاب الحديث فلاادري من هم ’’ (3) قال  ابن مبارك :’’ هم عندي اصحاب الحديث ’’ (4) قال البخاري :’’ يعني اصحاب الحديث ’’(5)

2-«طوبي للغرباء الذين يحيون سنتي من بعدي ويعلمونها عباد الله »(6) وقال عبدا ن احد رواة الحديث المذكور :’’ هم اصحاب الحديث الاوائل’’

3-« ان بني اسرائيل افترقت علي احدي وسبعين فرقة ....... كلها في النار الا واحدة وهي الجماعة » (7) قال الامام :’’ ان لم يكونوا اصحاب الحديث فلا ادري من هم ’’ (8)

4-قال يزيد بن هارون :قلت لحماد بن زيد :’’ هل زكر الله اهل الهديث في القرآن؟’’ قال لي : الم  تسمع الي قوله :﴿ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾(9) قال عبد الرزاق صاحب المصنف :’’ هم اصحاب الحديث .’’ (10)

مزید آنکہ علامہ ناصرالدین البانی  رحمۃ اللہ علیہ  سے دریافت کیا گیا کہ خود کو اہل حدیث یا سلفی کہلانا بدعت ہے؟ اس کے جواب میں فرماتے ہیں بھائیو! جن بدعات سے ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے روکا ہے۔ ہمیں ڈرایاگیا ہے کہ دین میں بدعات کو داخل نہ ہونے دیں۔لوگوں کے خیال میں بدعات کے ساتھ  تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لہاظ سے بدعات کا تعلق وسائل سے نہیں ہے بلکہ '' مقاصد شرعیہ'' کے ساتھ ہے۔یعنی ان کے نزدیک بدعت سے اللہ کے قرب میں اضافہ ہوتا ہے۔او ر یہ بات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مشہور حدیث کے خلاف ہے ۔ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

’’ من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد ’’

'' جس شخص نے بھی  ہمارے دین میں کسی نئے کام کو داخل کیا تو وہ نیا کام مردود ہے۔''

اس مضمون کی دوسری احادیث بھی معروف ہیں۔البتہ وسائل جن کو حقیقی مقام حاصل نہیں ہے۔اور وہ بعد  میں دین میں آئے ہیں۔اگر نص صریح کے خلاف نہیں تو کچھ حرج نہیں  جیسا کہ  بعض ملکوں میں اپنا ہم نام''اہل حدیث'' رکھتے ہیں۔ جب کہ یہ نام رکھنے سے مقصود دوسروں پر طعن کرنا نہیں ہے۔ جو خود کو اہل حدیث نہیں کہتے اس لہاظ سے اس کے نام رکھنے میں ہرگز بدعت کا شائبہ نہیں۔یہ لقب تو دوسری اصطلاحات کی طرح ایک اصطلاح ہے۔ جیسا کہ علماء نے اصطلاحات وضع کی ہیں اور وہ بات بلاشبہ درست ہے کہ یہ نام بدعات میں سے ہیں لیکن ان بدعات سے نہیں کہ جن کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔چنانچہ کچھ لوگ اپنا نام'' اہل حدیث '' رکھتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ'' سلفی ''کہلاتے ہیں اور بعض ''انصارالسنۃ'' کہلاتے ہیں یہ صرف ایک اصطلاح ہے۔ اور اصطلاحات میں کچھ رکاوٹ نہیں ہے لیکن ان لوگوں کا (جماعت المسلمین) اہل حدیث کے نام کو بدعت قراردینا ان کی جہالت پر دلالت کرتا ہے۔بدعات سے اصل مقصود اللہ کے قرب میں اضافہ کرنا ہے اور مطلقاً اصطلاحات کے لہاظ سے اس میں کوئی حرج نہیں۔البتہ اعتراضات کرنے والے ان اصطلاحات کو اپنے اعتراض کا ہدف بناتے ہیں۔جو درست نہیں اس سے ان کا مقصد مخصوص وسائل کے زریعے پھیلنا اور اپنی شہرت چاہنے کے سوا کچھ نہیں۔(بحوالہ الفرقۃ الحدیدۃ:191۔192)


1۔ اب حبان (١٥/٢٤٨‘٢٤٩) رقم (٦٨٣٤)عن قرة رضي الله عنه بتحقيق الارنووط وقال:’’ حديث صحيح ’’ ومعناه في احمد (٥/٣٤‘٣٥) صحيح اسناده محققه

2۔ الترمذي كتاب الفتن باب ماجاء في اهل الشام (٢١٩٢) ط دارالسلام وشرف اصحاب الحديث رقم (١٢‘٥-)

3۔ شرف الصحاب الحديث رقم ( ٤٦) فتح الباري (١٣/٢٩٣)

4۔ معناه في شرف اصحاب الحديث رقم (١١٧)

5۔ شرف اصحاب الحديث (٥١)

6۔ صححه احمد شاكر والالباني الترمذي ابواب الايمان باب ماجاء  انالاسلام بدا غريبا(2770) المشكاة (170) احمد (١/١٨٤) ابن ماجه (٣٩٨٨)

7۔ صححه الباني ابو دائود (٤٥٩٧) الترمذي (٢٧٩١) والصحيحه (١٣٩٢‘٢-٣)

8۔قاله الامام احمد رحمة الله عليه شر ف اصحاب الحديث (101) وفتح الباري (١٣/٢٩٣)

9۔ شرف  اصحاب الحدیث رقم (119)

10۔ شرف اصحاب الحدیث رقم (120)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص499

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ